پاکستان کے سب سے بڑے دریائے سندھ میں پانی کی کمی کے باعث صوبہ سندھ میں گندم کی فصل کا مطلوبہ ہدف حاصل نہیں ہو سکا۔ گندم کو کاشت کے دوران کافی مقدار میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن گزشتہ موسم سرما میں بارشوں کی شدید کمی سے دریائے سندھ میں پانی خطرناک حد تک کم ہو گیا جس کا براہ راست اثر یہاں کی فصلوں پر پڑا۔
جب کہ ٹماٹر کی فصل پر ایک بیماری نے حملہ کر دیا ہے کی وجہ سے اس کی پیداوار کم رہنے کا خدشہ ہے۔ اس صورت میں ملکی معیشت اور صارفین دونوں ہی متاثر ہوں گے۔
پاکستان گندم کی پیداوار میں خود کفیل ہے۔ منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکورٹی اینڈ ریسرچ کی رپورٹ کے مطابق صوبہ سندھ میں 2017 میں3910400 ٹن گندم پیدا ہوئی۔ یہ گزشتہ برسوں کی نسبت سب سے زیادہ گندم کی پیداوار کا سال تھا۔
سندھ چیمبر آف ایگریکلچر نے دریائے سندھ میں پانی کی کمی کی وجہ سے 2018 میں گندم کی پیداوار میں کمی کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔جو کافی حد تک درست ثابت ہوا ہے۔
صوبہ سندھ میں گندم کی پیداوار میں اضافے کی بجائے کمی دیکھی گئی اور اس سال 3582000 ٹن گندم حاصل ہوئی۔ نومبر2018 میں سندھ اسمبلی کے اجلاس میں وزیر ایگریکلچر محمد اسماعیل راہو نے دریائے سندھ میں 38% پانی کی کمی کی وجہ سے گندم کی پیداوار میں مزید کمی کا خدشہ ظاہر کیا۔
پاکستان کے سب سے بڑے دریائے سندھ میں رواں سال پانی کی شدید کمی کی وجہ سے گندم کی فصل 2017 جیسا ہدف حاصل نہیں کر سکی۔ کیونکہ فصل کی کٹائی کے موقع پر غیرمتوقع بارشوں سے کھڑی فصل کے دانے کو نقصان پہنچنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
گندم کی پیداوار میں کمی سے جہاں زمینداروں کو مالی نقصان پہنچا ہے وہیں کاشتکار بھی سخت پریشان نظر آتے ہیں، کیونکہ انکا گزر بسر ان فصلوں سے ملنے والی اجرت پرہوتا ہے۔
سکھر کے کچے کے علاقے کے کاشت کار ساعت علی شیخ کا کہنا تھا کہ ہر سال ایک ایکڑ زمین پر 40 سے 45 من گندم پیدا ہوتی ہے لیکن اس سال پانی کی کمی کی وجہ سے فی ایکڑ 25 سے 30 من گندم پیدا ہوئی جو کہ گزشتہ سالوں کی پیداوار کے مقابلے میں کافی کم ہے۔
روہڑی شہر سے ملحقہ کندھراتعلقہ کے کئی دیہات ایسے بھی ہیں جہاں پانی نہ ہونے سے گندم پیدا ہی نہیں ہوئی۔
ایک اور کاشت کار تاج محمد شیخ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی فصل کو ٹیوب ویل سے پانی دیا۔جس کی وجہ سے ڈیزل کا اضافی خرچ بھی برداشت کرنا پڑا۔ جب کہ فصل کو کیڑے سے بچانے کے لیے ادوایات کا اسپرے، مہنگے داموں بار دانہ ملنے سے مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پری مون سون بارشوں نے تیار فصل کو مزید نقصان دیا اور اب تیار گندم کے دانے خراب ہو جانے کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
اندرون سندھ کے دیہی علاقوں میں اس وقت ٹماٹر کی فصل تیار ہے۔ سینکڑوں ایکڑ اراضی پر کاشت کیے جانے والے ٹماٹروں میں اولی نامی بیماری لگ گئی ہے جس سے ٹماٹر سوکھ گئے ہیں۔
کاشت کار دل مراد دھاریجو کہتے ہیں کہ ٹماٹر کی فصل کو نقصان سے ایک پیٹی(دس کلو) ٹماٹر صرف تین سو روپے میں منڈی میں فروخت کر رہے ہیں۔
ٹماٹر ایک ایسا پھل ہے جو سلاد کے علاوہ پاکستانی کھانوں میں ذائقے کی بہتری کے لیے بھی ہر گھر میں استعمال ہوتا ہے۔گزشتہ کئی ماہ سے انڈیا سے ٹماٹروں کی آمد بند ہونے کی وجہ سے اس کے نرخ بہت بلند تھے اور توقع کی جا رہی تھی کہ سندھ کی فصل آنے سے صارفین کو موزوں نرخوں پر ٹماٹر ملنے شروع ہو جائیں گے لیکن بیماری کی وجہ سے اب ان توقعات کا پورا ہونا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے اپنی فصلوں کی برآمد سے قیمتی زرمبادلہ حاصل کرتا ہے لیکن اب گندم اور ٹماٹر دونوں کی فصلیں متاثر ہو جانے کے بعد ملکی معیشت پر بھی اس کے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔