پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ ملک کی عدلیہ کمزور نہیں اور سپریم کورٹ ہی حتمی فیصلہ کرنے والا ادارہ ہے۔
پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ ملک کی عدلیہ کمزور نہیں اور سپریم کورٹ ہی حتمی فیصلہ کرنے والا ادارہ ہے۔
منگل کو ایک کیس کی سماعت کے دوران میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی پوزیشن بہت واضح ہے اور کسی کو بھی کسی بھی قسم کی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے یہ ریمارکس پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے اس بیان کے ایک روز بعد دیے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کسی بھی ادارے یا فرد کو اپنے تئیں ملکی مفاد کے حتمی تعین کا حق حاصل نہیں ہے اور تمام اداروں کو آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔
پیر کو آرمی چیف کی جانب سے جاری کیے جانے والے اس غیر معمولی بیان کو پاکستانی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں نمایاں جگہ دی گئی ہے اور اس پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ منگل کو مسلسل دوسرے روز بھی جاری رہا۔
تجزیہ کاروں کی اکثریت کی رائے ہے کہ آرمی چیف کے اس بیان کا مخاطب بظاہر اعلیٰ عدلیہ ہے جس نے حال ہی میں بعض سابق فوجی جنرلوں کے خلاف فیصلہ دیا ہے جب کہ بلوچستان میں امن و امان اور لاپتہ شہریوں کے مقدمات میں فوج کے خفیہ اداروں اور نیم فوجی دستوں کے کردار کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتی آئی ہے۔
پیر کو آرمی چیف کے بیان کے چند گھنٹوں بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹینکوں اور میزائلوں کی بنیاد پر ملکی استحکام کے تعین کے دن گزر چکے ہیں اور قومی تحفظ کے نظریات تبدیل ہورہے ہیں۔
اپنے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ملک میں آئین کی بالادستی قائم کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے اور اس معاملے میں عدالتِ عظمیٰ حتمی اختیارات رکھتی ہے۔
منگل کو عدالتِ عظمیٰ میں ذرائع ابلاغ کے کردار سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران میں چیف جسٹس کا درخواست گزار کے وکیل اور سابق اٹارنی جنرل راجہ ارشاد سے آرمی چیف کے بیان پر مکالمہ ہوا۔
واضح رہے کہ راجہ ارشاد سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت لاپتہ افراد کے کیس میں فوج اور خفیہ اداروں کے وکیل ہیں۔
تین رکنی بینچ نے ایبٹ آباد میں گزشتہ برس کے امریکی آپریشن اور اس میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستانی ذرائع ابلاغ کے کردار سے متعلق مقدمے کی سماعت منگل کو شروع کی تو درخواست گزار کے وکیل راجہ ارشاد نے چیف جسٹس سے کہا کہ میڈیا نے ان کے اور آرمی چیف کے کل کے بیانات کو غلط انداز سے پیش کیا ہے اور دونوں اداروں کے درمیان جنگ کا تاثر دیا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل کو اس موضوع پر گفتگو سے منع کرتے ہوئے کہا کہ عدالت "گزشتہ روز دیے گئے بیانات پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے"۔
اس پر راجہ ارشاد نے کہا کہ فوج اداروں کا احترام کرتی ہے اور اس نے عدالت کے ہر فیصلے پر عمل درآمد کیا ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ "جی ہاں، یہ ہم کل دیکھ چکے ہیں"۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ ہی حتمی فیصلہ کرنے کا ادارہ ہے اور اس کی پوزیشن بہت واضح ہے اور کسی کو بھی کسی بھی قسم کی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔
راجہ ارشاد کے اس استفسار پر کہ عدالت کے کون سے حکم پر آرمی چیف نے اب تک عمل نہیں کیا چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے ابھی تک ایسا کوئی حکم دیا ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے راجہ ارشاد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ فوج کے نہیں درخواست گزار کے وکیل ہیں لہذا خود کو زیرِ سماعت مقدمے تک محدود رکھیے۔
بعد ازاں عدالت نے 2 مئی 2011ء کو ایبٹ آباد میں امریکی کاروائی کے بعد فوج کے ترجمان ادارے 'آئی ایس پی آر' کی جانب سے جاری کردہ تمام اخباری بیانات اور واقعے کے فوری بعد صدر آصف علی زرداری کے امریکی اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' میں شائع ہونے والا مضمون طلب کرتے ہوئے سماعت 22 نومبر تک ملتوی کردی۔
منگل کو ایک کیس کی سماعت کے دوران میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی پوزیشن بہت واضح ہے اور کسی کو بھی کسی بھی قسم کی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے یہ ریمارکس پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے اس بیان کے ایک روز بعد دیے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کسی بھی ادارے یا فرد کو اپنے تئیں ملکی مفاد کے حتمی تعین کا حق حاصل نہیں ہے اور تمام اداروں کو آئین کے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔
پیر کو آرمی چیف کی جانب سے جاری کیے جانے والے اس غیر معمولی بیان کو پاکستانی و غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں نمایاں جگہ دی گئی ہے اور اس پر تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ منگل کو مسلسل دوسرے روز بھی جاری رہا۔
تجزیہ کاروں کی اکثریت کی رائے ہے کہ آرمی چیف کے اس بیان کا مخاطب بظاہر اعلیٰ عدلیہ ہے جس نے حال ہی میں بعض سابق فوجی جنرلوں کے خلاف فیصلہ دیا ہے جب کہ بلوچستان میں امن و امان اور لاپتہ شہریوں کے مقدمات میں فوج کے خفیہ اداروں اور نیم فوجی دستوں کے کردار کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتی آئی ہے۔
پیر کو آرمی چیف کے بیان کے چند گھنٹوں بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹینکوں اور میزائلوں کی بنیاد پر ملکی استحکام کے تعین کے دن گزر چکے ہیں اور قومی تحفظ کے نظریات تبدیل ہورہے ہیں۔
ہم دیکھ چکے ہیں کہ فوج عدالت کا کتنا احترام کرتی ہےچیف جسٹس
اپنے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ملک میں آئین کی بالادستی قائم کرنا سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے اور اس معاملے میں عدالتِ عظمیٰ حتمی اختیارات رکھتی ہے۔
منگل کو عدالتِ عظمیٰ میں ذرائع ابلاغ کے کردار سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کے دوران میں چیف جسٹس کا درخواست گزار کے وکیل اور سابق اٹارنی جنرل راجہ ارشاد سے آرمی چیف کے بیان پر مکالمہ ہوا۔
واضح رہے کہ راجہ ارشاد سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت لاپتہ افراد کے کیس میں فوج اور خفیہ اداروں کے وکیل ہیں۔
تین رکنی بینچ نے ایبٹ آباد میں گزشتہ برس کے امریکی آپریشن اور اس میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاکستانی ذرائع ابلاغ کے کردار سے متعلق مقدمے کی سماعت منگل کو شروع کی تو درخواست گزار کے وکیل راجہ ارشاد نے چیف جسٹس سے کہا کہ میڈیا نے ان کے اور آرمی چیف کے کل کے بیانات کو غلط انداز سے پیش کیا ہے اور دونوں اداروں کے درمیان جنگ کا تاثر دیا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل کو اس موضوع پر گفتگو سے منع کرتے ہوئے کہا کہ عدالت "گزشتہ روز دیے گئے بیانات پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے"۔
اس پر راجہ ارشاد نے کہا کہ فوج اداروں کا احترام کرتی ہے اور اس نے عدالت کے ہر فیصلے پر عمل درآمد کیا ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ "جی ہاں، یہ ہم کل دیکھ چکے ہیں"۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ ہی حتمی فیصلہ کرنے کا ادارہ ہے اور اس کی پوزیشن بہت واضح ہے اور کسی کو بھی کسی بھی قسم کی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔
راجہ ارشاد کے اس استفسار پر کہ عدالت کے کون سے حکم پر آرمی چیف نے اب تک عمل نہیں کیا چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے ابھی تک ایسا کوئی حکم دیا ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے راجہ ارشاد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ فوج کے نہیں درخواست گزار کے وکیل ہیں لہذا خود کو زیرِ سماعت مقدمے تک محدود رکھیے۔
بعد ازاں عدالت نے 2 مئی 2011ء کو ایبٹ آباد میں امریکی کاروائی کے بعد فوج کے ترجمان ادارے 'آئی ایس پی آر' کی جانب سے جاری کردہ تمام اخباری بیانات اور واقعے کے فوری بعد صدر آصف علی زرداری کے امریکی اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' میں شائع ہونے والا مضمون طلب کرتے ہوئے سماعت 22 نومبر تک ملتوی کردی۔