انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے ایک بیان میں پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ کراچی میں سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن آفتاب احمد کی دوران حراست ہلاکت کی خود مختار، جامع اور شفاف تحقیقات کرائیں۔
رینجرز کی حراست میں مبینہ طور پر تشدد کے باعث آفتاب احمد کی ہلاکت کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بدھ کو ایک بیان میں اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
آفتاب احمد طویل عرصہ سے ایم کیو ایم کے رکن اور سینئیر رہنما فاروق ستار کے معاون کے طور پر کام کر رہے تھے۔
اُنھیں اغواء برائے تاوان، ہدف بنا کر قتل کرنے اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات پر یکم مئی کو گرفتار کیا گیا تھا۔
تین مئی کو اُنھیں تشویشناک حالت میں کراچی کے ایک اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نا ہو سکے۔
متحدہ قومی موومنٹ کا موقف ہے کہ آفتاب احمد کی موت کی وجہ اُن پر کیا جانے والا جسمانی تشدد تھا۔ اطلاعات کے مطابق جمعرات کو آفتاب احمد کے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بھی اُن کے جسم پر تشدد کے نشانات سامنے آئے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جنوبی ایشیا کی ڈپٹی ڈائریکٹر جمین کور نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’اس خوفناک انکشاف کے بعد کہ آفتاب احمد رینجرز کی تحویل میں ہلاک ہوا، اس کی خود مختار، مؤثر اور شفاف تحقیقات ہونا چاہیئں۔‘‘
آفتاب احمد کی موت کے فوراً بعد رینجرز کی طرف سے بیان میں کہا گیا تھا کہ اُن کی موت دل کا دورہ پڑنے سے واقع ہوئی۔ تاہم سندھ رینجرز کے سربراہ بلال اکبر نے اس واقعہ میں ممکنہ طور پر ملوث اہلکاروں کو معطل کر کے تحقیقات کا حکم بھی دے دیا تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جمین کور کا کہنا تھا کہ رینجرز کی طرف سے خود اس واقعہ کی تحقیقات کرنا کافی نہیں۔
ایمنسٹی کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ وہ رینجرز اور دیگر سکیورٹی فورسز کی جانب سے کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات سے آگاہ ہے۔
دریں اثنا پاکستان میں حزب مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر جمعرات کو ایک پیغام میں کہا کہ دوران حراست آفتاب احمد پر تشدد اور اُن کی ہلاکت قابل قبول نہیں ہے۔
کراچی میں 2013 سے فوجی آپریشن جاری ہے اور رینجرز کو پولیس اخیتارات دیے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت رینجرز کو مشتبہ افراد کو 90 روز تحویل میں رکھنے کے اختیارات بھی دیے گئے تھے۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی سربراہ زہرہ یوسف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس طرح کے اختیارات سے تشدد کے امکانات بڑھتے جاتے ہیں۔
’’جب قانون میں ترمیم آئی تھی تو اہم نے اُس وقت بھی تشویش ظاہر کی تھی کہ اگر آپ عدالت میں پیش کیے بغیر کسی (ملزم) کو 90 دن تک حراست میں رکھ سکتے ہیں تو اس صورت میں تشدد کی بہت گنجائش ہے۔‘‘
سکیورٹی فورسز کے عہدیدار ان الزامات کی تردید کرتے ہیں کہ دوران حراست ملزمان کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ اور صوبہ سندھ میں برسراقتدار جماعت پیپلز پارٹی نے فوج کے سربراہ کی طرف سے آفتاب احمد کی ہلاکت کی تحقیقات کے حکم کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اُنھیں اُمید ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔
آپریشن شروع ہونے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ رینجرز کی تحویل میں کسی شخص پر تشدد سے ہلاکت کی تحقیقات کا حکم دیا گیا ہے۔