چین میں سرکاری سطح پر رشوت ستانی اور بدعنوانی پر قابوکے لیے جاری کوششوں کے باوجود کرپشن سے متعلق عالمی درجہ بندی سے ظاہر ہواہے کہ اس ملک کا شمار اب بھی ان ممالک کی صف میں ہوتا ہے جہاں بڑے پیمانے پر رشوت چلتی ہے۔
برطانیہ میں قائم تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تارہ رپورٹ میں چین کو 183 ممالک کی فہرست میں 75 ویں درجے پر رکھا گیا ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل دنیا بھر کے ممالک کو شفافیت کے لحاظ سے 10 نمبروں کے ا سکیل پر پرکھتا ہے۔ ادارے کے انڈکس کے مطابق اس پیمانے پر چین کے پوانئٹ 3.6 ہیں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے منیجنگ ڈائریکٹر کابس دی سوارت نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بیجنگ میں حکام کا کہناہے کہ وہ چین کی ترقی کے مستقبل کی راہ میں کرپشن ایک بڑی رکاوٹ تصور کرتے ہیں اور ہم سرکاری سطح پر ہونے والی بدعنوانی اور رشوت خوری روکنے کی کوششیں کررہے ہیں۔
تنظیم کے ڈائریکٹر نے اپنی رائے کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ لیکن بظاہر ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ اس سلسلے میں چین نے دنیا کے دیگر ممالک جیسے اقدامات کیے ہوں۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے جاری کردہ حالیہ انڈکس میں نیوزی لینڈ کو پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے، جو گذشتہ ریٹنگ میں بھی ایک ایسا ملک تھا جہاں دنیا بھر میں سب سے کم رشوت خوری ہے۔ اس کے بعد ناروے، ڈنمارک، سویڈن اور فن لینڈ ہیں۔
جب کہ کرپشن میں امریکہ کو 24 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔
تنظیم کے ڈائریکٹر کا کہناتھا کہ اس فہرست کے آخر میں شمالی کوریا اور صومالیہ ہیں ، کیونکہ ان دنوں ممالک میں ڈکٹیٹرشپ ہے اور احستاب کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ وہاں نہ تو انتخابات ہوتے ہیں اور نہ ہی عدلیہ آزاد ہے اوران دونوں ممالک میں سول سوسائٹی اپنی کوئی آواز نہیں رکھتی۔