چین بالآخر سائنس میں نوبل انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا

چوراسی سالہ ٹو یویو کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں مگر ان کا نام سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔

کئی دہائیوں سے چین سائنس کے شعبوں میں نوبل انعام حاصل کرنے کا آرزو مند رہا ہے۔ اس سال ایک غیرمعروف تحقیقی سائنسدان جنہوں نے ایک قدیم نسخے سے انسداد ملیریا کے لیے ایک دوا علیحدہ کی تھی، یہ اعزاز پانے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔ وہ چین کی نوبل انعام پانے والی پہلی خاتون ہیں۔

چوراسی سالہ ٹو یویو کو یہ اعزاز ملنے کے بعد انہیں ہر طرف سے مبارکباد کے پیغامات مل رہے ہیں۔ چین میں ٹو یویو کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں مگر ان کا نام سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہا ہے۔

چین کے وزیراعظم لی کیچیانگ اور تعلیم، سائنس اور ریسرچ کے انچارج نائب وزیراعظم لیو یانگ ڈونگ نے ٹو یویو کو انعام جیتنے پر مبارکباد دی ہے۔

ٹو یویو نے سرکاری ٹیلی وژن پر کہا کہ نوبل انعام ان کے لیے ایک ’’بڑا اعزاز‘‘ ہے مگر ساتھ ہی کہا کہ یہ تحقیق کاروں کی ایک ٹیم کی ’’اجتماعی کامیابی‘‘ ہے۔

ٹو یویو کو طب کا نوبل انعام آئرلینڈ اور جاپان کے سائنسدانوں کے ساتھ مشترکہ طور پر دیا گیا۔

آئرلینڈ کے ولیم کیمبل اور جاپان کے سنتوشی اومورا کو طفیلی کیڑوں سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا ایک ’’نیا علاج‘‘ دریافت کرنے پر دیا گیا جبکہ ٹو یویو نے جس دوا کو دریافت کیا تھا اس سے ملیریا کے مریضوں کی شرح اموات میں خاصی کمی آئی ہے۔

نوبل انعام کمیٹی نے کہا کہ ’’ان دو دریافتوں نے بنی نوع انسانی کو لاغر کرنے والے ان امراض جن سے ہر سال کروڑوں افراد متاثر ہوتے ہیں، سے نمٹنے کے لیے طاقتور نئے ذرائع فراہم کیے ہیں۔ انسانی صحت کو بہتر کرنے اور تکالیف کو کم کرنے میں ان کے کردار کے نتائج بے پایاں ہیں۔‘‘