چین کے صوبہ سنکیناگ میں رہنے والے ایغور مسلمانوں کی کوریج کرنے والے دو غیر ملکی صحافی گزشتہ دو ہفتوں سے چین کے پراپیگنڈے کی زد پر ہیں اور انہیں چینی میڈیا اور آن لائین حملوں کا سامنا ہے۔
وائس آف امریکہ کی جوائس ہوآنگ کی رپورٹ کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے صحافی جان سڈورتھ اور آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والی محقق اور رپورٹر وِکی شو، نے چین کی جانب سے ، بقول سڈ ورتھ کے، خیالات و نظریات کو کنٹرول کرنے کی "انتہائی غیر متناسب جنگ" کے جواب میں خاموش رہنے سے انکار کر دیا ہے۔
جان سڈورتھ نو سال تک بیجنگ میں صحافتی خدمات انجام دیتے رہے، لیکن حکام کی جانب سے قانونی کارروائی کی دھمکیوں اور دباؤ کے بعد، گزشتہ ہفتے انہیں اپنے خاندان کے ساتھ تائیوان منتقل ہونا پڑا۔ غیر ملکی میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی چین سے اچانک روانگی کا یہ تازہ ترین واقعہ ہے۔
اپنے ایک مضمون میں، انہوں نے چین کے انتہائی جارحانہ رویہ رکھنے والے سفارتکاروں کے لیے "وولف واریئر" کی اصطلاح استعمال کی ہے جس کا مفہوم ایسے سفارت کار ہیں جو غیر ملکی میڈیا رپورٹنگ پر ٹویٹر پیغاموں کے ذریعے ہر قسم کی تنقید کرتے ہیں اور اس تنقید کی زد میں بی بی سی بھی ہے۔
رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کے مشرقی ایشیا کے بیورو چیف سیڈرک ایل ویانی کا کہنا ہے کہ چین میں مقیم تمام غیر ملکی نامہ نگاروں کو چین ایک ناپسندیدہ گواہ کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔
ایل ویآنی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چین کی حکومت غیر ملکی نامہ نگاروں کو مسلسل ہراساں کر رہی ہے تا کہ ان کے کام کی انجام دہی کو مشکل تر بنانے کو یقینی بنایا جا سکے۔ سڈ ورتھ کی جبری روانگی، ان ہی کارروائیوں کا ایک براہ راست نتیجہ ہے۔
ایل ویآنی کا کہنا تھا کہ چین نے اب تک 18 غیر ملکی نامہ نگاروں کو اپنے ملک سے نکالا ہے۔
وائس آف امریکہ نے سڈورتھ اور وکی شو سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا مگر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
چین نے اس بات کی تردید کی ہے کہ سڈورتھ کو کوئی خطرہ لاحق تھا۔ چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، ہو آچن یِنگ نے گزشتہ ہفتے اپنی نیوز بریفنگ میں حکومت کی جانب سے سڈورتھ کو دھمکانے سے انکار کیا تھا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ صرف یہ سنا گیا ہے کہ سنکیانگ کے کچھ لوگ اور ادارے ان کی "بہتان آمیز رپورٹوں" پر ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنا چاہتے تھے، لیکن اس کا حکومت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ سڈورتھ کو چین ہی میں قیام کرکے اپنی بے گناہی کو ثابت کرنا چاہئیے تھا۔
دوسری جانب سڈورتھ بی بی سی کے لیے لکھے گئے اپنے مضمون میں کہتے ہیں کہ چین کا نظامِ انصاف آزاد نہیں ہے اور یہ کمیونسٹ پارٹی کی ہی ایک شاخ ہے۔
صوبہ گین سُو سے تعلق رکھنے والی، چھبیس سالہ صحافی وکی شو، کیمونسٹ پارٹی کی وفادار تھیں، اور بیجنگ میں انگریزی زبان کے براڈ کاسٹر کے طور پر ان کی تربیت ہوئی، بعد میں وہ انسانی حقوق پر رپورٹنگ کے لیے چین چھوڑ کر چلی گئیں۔
وکی شو، آسٹریلیا میں رہتی ہیں۔ چین کے ایغور مسلمانوں کی صورتحال کے بارے میں لکھنے کی وجہ سے اس ہفتے ہزاروں آن لائین ٹرولز کے ذریعے ان کی صحافتی ساکھ کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ اُن کو 2020 میں ان کے لکھے گئے ایک مضمون کی بنا پر خاص طور پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
ایک غیر جانبدار تھنک ٹینک، آسٹریلیا سٹریٹیجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے لیے ان کی رپورٹ "ایغور برائے فروخت" کو خاص طر پر ٹرولنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 2017 سے 2019 کے درمیان تقریباً 80 ہزار ایغور آبادی کو سنکیانگ سے باہر منتقل کیا گیا تاکہ وہ ملک بھر میں پھیلی فیکٹریوں میں کام کریں۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایغور ایسے حالات میں کام کر رہے ہیں جو جبری مشقت کے زمرے میں آتے ہیں، اور ایسی فیکٹریوں میں کام کر رہے ہیں جو دنیا کی کم ازکم 82 معروف برانڈ کی کمپنیوں کے لیے مصنوعات تیار کرتی ہیں۔ ان میں ٹیکنالوجی، ملبوسات، اور موٹر گاڑیوں کے پرزہ جات کے شعبے شامل ہیں۔
رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کے ال ویآنی کہتے ہیں کہ پریس کی آزادی اور اظہار کی آزادی پر چین کے حملوں کے خلاف دنیا بھر کی جمہوریتوں کو متحد ہونا چاہئیے۔