چین میں ایک تہائی سے زیادہ بالغ افراد ہائی بلڈپریشر کے مرض میں مبتلا ہیں لیکن ان میں سے محض 20 فی صد اس پر کنڑول کے لیے باقاعدگی سے دوا لیتے ہیں۔
حال ہی میں جاری ہونے والے ایک مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ چین میں اموات کی سب سے بڑی وجہ سٹروک ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین میں ہر سال ، ہر پانچویں شخص کی ہلاکت کی وجہ سٹروک کا حملہ بنتا ہے۔
رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کے چینی مریض اپنے مرض کی سنگینی کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔
مطالعاتی جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ محض ایک چوتھائی چینی باشندے ہائی بلڈپریشر کے علاج کے لیے دوا لیتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ جس قسم کی دوائیں استعمال کرتے ہیں، وہ اکثر اوقات اس مرض کے لیے غیر موزوں ہوتی ہیں۔
طب سے متعلق ایک اہم جریدے ’ دی لین سیٹ‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کے علاج سے چینی باشندوں کی لاپرواہی کا یہ عالم ہے کہ ہر 12 میں ایک میڈیکل اسٹور پر یہ اس کی دوائیں سرے سے ہوتی ہی نہیں ہیں۔ اسٹور مالکان اپنے پاس ان کا ذخیرہ اس لیے نہیں رکھتے کیونکہ وہ عموماً فروخت نہیں ہوتیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلڈ پریشر کا علاج نہ کرانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کم قیمت موثر دواؤں کی موجودگی کے باوجود اکثر اوقات ڈاکٹر مریضوں کو مہنگی دوائیں تجویز کر تے ہیں۔
رپورٹ مرتب کرنے والوں کا کہناہے کہ چین میں ہائی بلڈ پریشر کے مرض میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی اہم وجہ بوڑھوں افراد کی تعداد میں اضافہ، دیہاتوں سے شہروں کی جانب آبادی کی منتقلی کا رجحان، کھانے پینے کی عادات میں تبدیلی اور موٹاپے کی شرح میں اضافہ ہے۔
اس رپورٹ کی تیاری کے لیے ماہرین کے گروپ نے وسطی چین کے 31 صوبوں میں 17 لاکھوں افراد کا طبی معائنہ کیا جن کی عمریں 35 سے 75 سال کے درمیان تھیں۔
یہ مطالعاتی جائزے کا مقصد چین میں دل کے امراض میں اضافے کی وجوہات کی نشاندہی کر نا اور اس کا حل تجویز کرنا تھا۔
اس مہم میں بنیادی طبی امداد کے 33 سو مراکز نے حصہ لیا اور مطالعاتی ٹیم کو ڈیٹا فراہم کیا۔
اس مطالعاتی جائزے کا انتظام یوسی ایل انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ اور چی کیانگ یونیورسٹی کے سکول آف پبلک ہیلتھ نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔