ایغور پروفیسر تہتی کا شمار بیجنگ حکومت کے شدید ناقدین میں ہوتا ہے اور گزشتہ بدھ کو پولیس نے ان کے گھر پر چھاپے میں انہیں تحویل میں لیا تھا۔
چین میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے ایک تحریری اپیل کے ذریعے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ زیرحراست پروفیسر ایلہم تہتی کو فوری رہا کیا جائے۔
ایغور شہری تہتی کا شمار بیجنگ کے شدید ناقدین میں ہوتا ہے اور گزشتہ بدھ کو پولیس نے ان کے گھر پر چھاپے میں انہیں تحویل میں لیا تھا، تاہم 45 سالہ پروفیسر پر عائد الزامات سے متعلق انتظامیہ نے کوئی بیان نہیں دیا۔
چین کی وزارت خارجہ کے مطابق تہتی کو ’’جرائم سر زد کرنے کے شبے‘‘ حراست میں لیا گیا۔
تبت سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن وویسر نے اپنی ویب سائٹ پر ایک اپیل شائع کی جس میں چینی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تہتی کو فوری رہا کرے یا ان کے خلاف عائد ’الزمات‘ کے شواہد پیش کرے۔
پروفیسر تہتی کی رہائی کے لیے منگل تک 11 سو افراد نے تحریری اپیل پر دستخط کیے جن میں کئی چینی شہری ہیں۔
دریں اثناء سرکاری میڈیا میں متعدد اداریے شائع ہوئے جس میں تہتی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
کیمونسٹ پارٹی کے روزنامہ گلوبل ٹائمز نے الزام لگایا کہ پروفیسر تہتی سنکیانگ میں جاری علیحدگی پسندوں کی وکالت کرتے ہوئے ’’دہشت گردوں کے لیے اخلاقی عذر تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔
تہتی بیجنگ کی ایک مرکزی یورنیورسٹی کے شعبہ اقتصادیات سے منسلک ہیں اور اس سے پہلے بھی متعدد بار اپنے تنقیدی تبصروں کی وجہ سے تحویل میں لیے جا چکے ہیں۔
ایغور شہری تہتی کا شمار بیجنگ کے شدید ناقدین میں ہوتا ہے اور گزشتہ بدھ کو پولیس نے ان کے گھر پر چھاپے میں انہیں تحویل میں لیا تھا، تاہم 45 سالہ پروفیسر پر عائد الزامات سے متعلق انتظامیہ نے کوئی بیان نہیں دیا۔
چین کی وزارت خارجہ کے مطابق تہتی کو ’’جرائم سر زد کرنے کے شبے‘‘ حراست میں لیا گیا۔
تبت سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن وویسر نے اپنی ویب سائٹ پر ایک اپیل شائع کی جس میں چینی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تہتی کو فوری رہا کرے یا ان کے خلاف عائد ’الزمات‘ کے شواہد پیش کرے۔
پروفیسر تہتی کی رہائی کے لیے منگل تک 11 سو افراد نے تحریری اپیل پر دستخط کیے جن میں کئی چینی شہری ہیں۔
دریں اثناء سرکاری میڈیا میں متعدد اداریے شائع ہوئے جس میں تہتی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
کیمونسٹ پارٹی کے روزنامہ گلوبل ٹائمز نے الزام لگایا کہ پروفیسر تہتی سنکیانگ میں جاری علیحدگی پسندوں کی وکالت کرتے ہوئے ’’دہشت گردوں کے لیے اخلاقی عذر تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔
تہتی بیجنگ کی ایک مرکزی یورنیورسٹی کے شعبہ اقتصادیات سے منسلک ہیں اور اس سے پہلے بھی متعدد بار اپنے تنقیدی تبصروں کی وجہ سے تحویل میں لیے جا چکے ہیں۔