یوکرین پر روس اور مغرب کے درمیان مخاصمت کو چین بڑھتی ہوئی دلچسپی کے ساتھ دیکھ رہا ہے۔ یوکرین کی سرحد پر ایک لاکھ سے زیادہ روسی فوجیوں کی تعیناتی کے ساتھ، مغربی ممالک میں یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ کریملن فوری حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ ماسکو نے ایسے کسی منصوبے کی تردید کی ہے۔
مغربی ممالک نے دھمکی دی ہے کہ اگر ماسکو نے یوکرین پر حملہ کیا تو اس کے خلاف شدید اور مثالی اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ اگر روس کے مغرب کے ساتھ تعلقات منقطع ہوتے ہیں تو کیا روس مدد کے لیے مشرق یعنی چین کی طرف دیکھ سکتا ہے؟ یونیورسٹی آف لندن کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز میں چائنا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر اسٹیو سانگ کا کہنا ہے کہ بیجنگ اس صورتحال میں قدم رکھنے کے لیے تیار ہے۔
بقول ان کے، ’’ شی جن پنگ کی قیادت میں چین کی ایک واضح پالیسی ہے کہ دنیا کو جابر حکمرانوں کے لیے محفوظ بنایا جائے اور شی جن پنگ خود بھی مانتے ہیں کہ وہ ایک سرکردہ سوشلسٹ ملک ہونے پر یقین رکھتے ہیں اور چین اس اعتبار سے سابق سوشلسٹ ممالک کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ لہٰذا، روس صدر ولادیمیر پوٹن کی قیادت میں دو چیزوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے سمجھتا ہے کہ وہ حمایت کا مستحق ہے‘‘
SEE ALSO: فروری میں یوکرین پر روسی حملے کا خدشہ ہے: امریکہاس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے سانگ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "میرے خیال میں چین جو پالیسی اختیار سکتا ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ اور یورپی ملکوں کی جانب سے روس پر پابندیوں کے بعد بیجنگ جو بھی ممکن ہو سکے روس کی مدد کرتا رہے۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ روس اور چین کے درمیان اقتصادی تعلقات اتنے مضبوط نہیں ہیں کہ روس اور یورپ کے درمیان اقتصادی روابط کے ٹوٹنے پر ان کی جگہ لے سکے۔‘‘
ماسکو اور بیجنگ کے درمیان رابطہ کاری:
چین خود ایشیا کے علاقے میں گھرا ہوا ہے لیکن اس نے روس کو سیاسی حمایت کی پیشکش کی ہے۔
ماسکو میں روس کی نیشنل ریسرچ یونیورسٹی کے تجزیہ کار دمتری سوسلوف کہتے ہیں کہ، ’’خارجہ پالیسی کی یہ رابطہ کاری یقینی طور پر بڑھے گی۔‘‘ ان کے بقول "کیونکہ روسی نقطہ نظر سے، روس اور چین کے درمیان فوجی شراکت داری میں شدت ان اہم تکالیف میں سے ایک ہے جو روس امریکہ اور نیٹو کو پہنچا سکتا ہے تاکہ ان قوتوں کو سمجھوتہ کرنے پر مجبور کر سکے" سوسلوف نے ان خیالات کا اظہار لندن میں قائم پالیسی گروپ چیتھم ہاؤس کے زیر اہتمام یوکرین پر منعقدہ ایک حالیہ بحث میں کیا۔
نیٹو میں شامل ممالک روس کی ممکنہ جارحیت کو روکنے کے لیے مشرقی یورپی رکن ممالک میں فوجیوں کی تعیناتی بڑھانے پر غور کر رہے ہیں۔ امریکہ نے یورپ میں ممکنہ تعیناتی کے لیے مزید 8,500 فوجیوں کو الرٹ پر رکھا ہے۔
یونیورسٹی کالج لندن کی سیکیورٹی تجزیہ کار جولی نارمن کا کہنا ہے کہ چین کسی بھی روسی حملے پر نیٹو اور امریکہ کے ردعمل کو بغور دیکھ رہا ہے۔ "اگرچہ مشرقی یورپی ریاستوں میں اتحادی ممالک کے فوجی تعینات ہیں لیکن کوئی بھی ملک یوکرین کے دفاع کے لیے اپنے فوجی روس کے اس پڑوسی ملک بھجوانے کی بات نہیں کر رہا ہے۔ اور یقیناً، چین اپنے علاقائی تنازعات کو پیش نظر رکھ کر اس صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے، اس کا نوٹس لے رہا ہے۔‘‘
سٹیو سانگ کا کہنا ہے کہ تائیوان چین کا سب سے بڑا علاقائی تنازع ہے- اور اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ بیجنگ یوکرین میں رونما ہونے والے جن واقعات کو دیکھ رہا ہے، ان کے حساب کتاب میں غلطی کا احتمال موجود ہے۔
"چینی امریکیوں اور یورپیوں کو بڑی باتیں کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں لیکن اس کے بارے میں بہت زیادہ کام نہیں کر رہے ہیں۔ ان کو تاہیوں کے حوالے سے حوصلہ ملے گا اور ممکنہ طور پر اس بارے میں غلط اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تائیوان کے بحران پر امریکی ردعمل کیا ہو سکتا ہے۔"
چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ:
امریکہ کے ساتھ دونوں ملکوں کے مخاصمانہ تعلقات کے باوجود، چین اور روس کے مفادات ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔ چین نے مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا میں بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جو کسی بھی تنازع کی صورت میں خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
بیجنگ کا ملٹی ٹریلین ڈالر کا "بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘‘ یوکرین سمیت کئی سابق سوویت بلاک کی ریاستوں سے گزرتا ہے۔ ایک براہ راست ریل اور فیری فریٹ لنک 2016 میں کھولا گیا، جو روس کو نظرانداز کرتے ہوئے جارجیا، آذربائیجان اور قازقستان کے راستے یوکرین کے بحیرہ اسود کے ساحل پر واقع الیشوسک (Illichivsk ) بندرگاہ سے چین کو جوڑتا ہے۔
یوکرین چین کو اناج برآمد کرتا ہے۔ 2025 تک، بیجنگ اور کیف کا مقصد دو طرفہ تجارت کو 50 فیصد بڑھا کر 20 بلین ڈالر سالانہ کرنا ہے۔ چین نے کیف کے لیے ایک نئی میٹرو لائن سمیت بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے بھی فنڈز فراہم کیے ہیں۔ اگر روس یوکرین پر حملہ کرتا ہے تو کیا خطے میں بیجنگ کی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ سکتی ہے؟ سانگ کا کہنا ہے کہ ابھی اس کے لیے چین بہت کم تشویش ظاہر کر رہا ہے۔
"بیلٹ اینڈ روڈ اقدام پر زیادہ فوری اثر درحقیقت قازقستان میں روسی فوجی مداخلت کا ہوگا۔ اور چینی حکومت نے حقیقت میں یہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے ان کو کچھ زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔ ان کے لیے، یہ زیادہ اہم ہے کہ اس وقت آمرانہ ریاستوں اور آمروں کی حمایت کی جائے تاکہ وہ اقتدار میں رہیں۔‘‘ یہ کہنا تھا پروفیسر سانگ کا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مختصر مدت میں، چین کم از کم اگلے چند ہفتوں تک بڑھتی ہوئی کشیدگی پر پردہ ڈالنے کا خواہاں ہے، کیونکہ وہ 4 فروری سے شروع ہونے والے سرمائی اولمپکس کی میزبانی کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔