افغاںستان میں طالبان کی قیادت مسلسل دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ موجودہ طالبان ماضی کے طالبان سے مختلف ہیں۔ اور اب ان کی سوچ اعتدال پسندانہ ہے۔ لیکن بہت سے تجزیہ کار اور اسکالر اس سے اتفاق نہیں کرتے، کیونکہ انکے بقول ٹیلیویژن پر کابل کے جو بعض مناظر وہ دیکھ رہے ہیں جن میں طالبان کے پیدل جنگجو جس قسم کی کارروائیاں کرتے نظر آتے ہیں، وہ ان دعووں سے مطابقت رکھتی نہیں رکھتیں۔
امریکہ کے سابق سفیر ولئیم بی مائیلم واشنگٹن کے تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سینٹر فار سکالرز سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان ان کے خیال میں نہ تو بدلے ہیں نہ وہ پہلے سے مختلف ہونگے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی جو قیادت یہ کہتی ہے کہ وہ نیا اور جدید ایجنڈا لیکر آرہی ہے، ان میں وہ لیڈر شامل ہیں، جنہوں نے گزشتہ دس یا بیس سال میں سے بیشتر وقت افغانستان سے باہر گزارا ہے اور وہ سیاست کے طور طریقوں سے واقف ہو گئے ہیں بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ وہ زیادہ Diplomatic یا سفارتی طور پر دانشمند ہوگئے ہیں اور وہی کہہ رہے ہیں جو دنیا سننا چاہتی ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ درحقیقت محسوس بھی کرتے ہوں کہ اب طالبان زیادہ حقیقت پسند ہو گئے ہیں جبکہ ان کا Foot Soldier یا پیدل جنگجو آج بھی وہی ہے جو بیس پچیس سال پہلے تھا اور ٹی وی پر کابل کےدکھائے جانے والے بعض مناظر اسکی تصدیق بھی کرتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ قیادت کی جانب سے اعتدال پسند پالیسیوں کے اعلان اور معمولی سی تبدیلیوں کے ساتھ بنیادی طور پر صورت حال آخر کار پرانی والی ہی رہے گی۔ جو انکے سابقہ دور میں تھی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ طالبان کی قیادت جو کچھ کہہ رہی ہے اور کرنے کی کوشش کا تاثر دے رہی ہے۔ اسکا مقصد بیرونی دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش ہے کہ وہ بدل گئے ہیں، ان کی سوچ بدل گئی ہے۔
افغانستان میں پاکستان کے رول کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بقول ان کے تاریخی مشکلات اور دشواریوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی تک اس سلسلے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں کہ افغانستان میں جو کچھ ہوا یا ہو رہا ہے ۔ پاکستان اس سے خوش ہے یا پریشان۔ لیکن انہوں نے کہا کہ یہ بات طے ہے کہ پاکستان کو یہ بھرپور احساس ہے کہ افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے یا آئیندہ ہو گا۔ اس سے پاکستان کا اہم مفاد وابستہ ہے اس لئے پاکستان خود کو غیر متعلق نہیں ہونے دے گا اور معاملات میں اپنا عمل دخل برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اور طالبان کو اس جانب لے جانا چاہے گا۔ جس جانب وہ انہیں لے جانا چاہتا ہے۔ پاکستان اس پورے معاملے میں شریک رہنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے اس کی حکمت عملی کیا ہو گی، یہ واضح نہیں ہے۔
سفیر مائیلم نےبعض حلقوں کے اس موقف کا ذکر کرتے ہوئے کہ افواج کے مکمل انخلاء کی تاریخ میں توسیع کی جائے، کہا کہ قوی امکانات ہیں کہ طالبان اس پر رضامند نہ ہوں۔ اور ایسی صورت میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں اور یہ معاملہ فریقین کے لئے پیچیدہ ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
مغربی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں چین اور روس کے کردار کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں سابق امریکی سفیر نے کہا کہ چین افغانستان سے معاشی فوائد حاصل کرنے اور افغانستان کے قدرتی وسائل میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اور اس حوالے سے اسکی کوشش ہو گی کہ انہیں رقم قرض دیں۔ جس کی طالبان حکومت کو ضرورت ہوگی کیونکہ انہیں مالی مشکلات کا سامنا ہو گا۔ اور اکتیس اگست کے بعد اسی حوالے سے ان کے فیصلوں کا رخ متعین ہو گا۔ جبکہ انکے زر مبادلہ کے ذخائر تقریباً ختم ہورہے ہونگے اور درآمدات میں بھی بہت کمی ہو چکی ہوگی۔ جن پر افغان عوام کا زیادہ تر انحصار ہے۔ کیونکہ اگر اسوقت انہیں مالی مدد نہ ملی تو افغانستان میں زندگی بہت دشوار ہو جائے گی۔ اور اسوقت چین سرمایہ کاری کی صورت میں مدد دینے کے لئے تیار ہوگا۔ اور معاوضے میں وہ طالبان سے بھی کچھ چاہے گا جو بقول انکے افغانستان کے قدرتی وسائل ہو سکتے ہیں۔
روس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان میں اس کا کوئی قابل ذکر کردار نہیں دیکھتے۔
ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے ولئیم مائلم نے بوقت ضرورت استعمال کے لئے افغانستان پر تعزیرات کا آپشن رکھنا ضروری قرار دیا اور کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد اگر طالبان پرانے طالبان میں بدلنا شروع ہوں تو ان تعزیرات کا استعمال کیا جانا چاہئیے اور اسوقت تک کرتے رہنا چاہئیے جب تک کہ طالبان اپنی پالیسیوں میں اعتدال پیدا نہ کریں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انٹرویو کے آخر میں انہوں کہا کہ یہ ساری صورت حال اس لئے پیدا ہوئی کہ فروری دو ہزار بیس میں طالبان کے ساتھ معاہدہ کیا گیا، جس میں ایک مقررہ وقت میں امریکہ نے افغانستان سے نکلنے کا وعدہ کر لیا۔ جس کے جواب میں طالبان نے بھی کچھ کرنے کا وعدہ کیا۔ جو وعدہ انہوں نے کبھی پورا نہیں کیا۔ لیکن امریکہ کی موجودہ حکومت نے اس معاہدے پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ بقول ان کے اس بات سے قطع نظر کہ یہ وعدہ کس امریکی حکومت نے کیا تھا، یہ امریکہ کا وعدہ تھا، امریکی ریاست کا وعدہ تھا، جس کو پورا کرنا ضروری سمجھا گیا۔ اور اسی کے سبب یہ صورت حال پیدا ہوئی، جو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔