چین کی پارلیمان نے انسداد دہشت گردی کا ایک متنازع قانون منظور کر لیا ہے جس میں غیر ملکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو حکومت کی طرف سے معلومات تک رسائی کی درخواستوں کی تعمیل کا پابند کیا گیا ہے، جس میں ’انکرپشن کی‘ یعنی وہ خفیہ کاری کی کلید تک رسائی بھی شامل ہو گی جس سے ڈیجیٹل مواد کو تبدیل کیا جاتا ہے کہ وہ پڑھا نہ جا سکے۔
سرکاری خبر رساں ادارے ژنہوا نے کہا کہ اتوار کو اس قانون کو نیشنل پیپلز کانگریس کی قائمہ کمیٹی نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ خبر میں کہا گیا کہ اس قانون کا مقصد ’’ملک میں دہشت گردی کو روکنا اور دنیا میں سکیورٹی قائم رکھنے میں مدد دینا ہے۔‘‘
یکم جنوری سے نافذ ہونے والے قانون کے مسودے پر اس سے قبل وائٹ ہاؤس کی طرف سے سخت تنقید کی گئی تھی جب صدر براک اوباما نے کہا تھا کہ اگر چینی کمپنیاں امریکہ کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتی ہیں تو انکرپشن یعنی خفیہ کاری کی کلید سے متعلق ضوابط میں ترامیم کرنا ہوں گی۔
اتوار کو قانون کی منظوری کے بعد وائٹ ہاؤس کی جانب سے فوری کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ اس سے قبل وائٹ ہاؤس نے اس تشویش کا بھی اظہار کیا تھا کہ چینی قانون انسانی حقوق کے متعدد مغربی اصولوں کو خطرے میں ڈالے گا۔
چین نے بارہا اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے دہشت گردی کا سخت خطرہ لاحق ہے، خصوصاً شمال مغربی سنکیانگ علاقے میں جہاں بڑی تعداد میں مسلم ایغور برادری آباد ہے۔ بیجنگ نے آزاد ریاست کے قیام کے لیے ایغور برادری کی طرف سے کی گئی کارروائیوں کو انتہا پسند تنظیموں بشمول طالبان اور داعش سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔
اتوار کو ژنہوا نے پبلک سکیورٹی کے سینیئر وزیر کا حوالہ دیا جنہوں نے ’’دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے‘‘ کے پیش نظر اس قانون کا دفاع کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’’دہشت گرد حملوں سے لوگوں کی جانوں اور مال کا بھاری نقصان ہوا ہے جس سے ہماری سلامتی، استحکام، اقتصادی ترقی اور نسلی اتحاد کو خطرہ لاحق ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ قانون ’’عالمی برادری کے ساتھ تعاون‘‘ کی راہ ہموار کرے گا۔