چین کے ریمورٹ کنٹرول سے چلنے والے خلائی جہاز سے مریخ پر اتاری گئی خلائی گاڑی کو سیارے کی سطح پر پہلی بار ہی میں چلانے میں محققین کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
چین کی سائنسی ایجنسی ’چائنا نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن‘ (سی این ایس اے) کے مطابق خلائی گاڑی ‘زہورونگ’ کی سطح پر بیجنگ کے مقامی وقت کے مطابق صبح 10 بج کر 40 منٹ پر چلنا شروع ہوئی۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق رواں ماہ چین، امریکہ کے بعد پہلا ملک بن گیا ہے جس نے مریخ کی سطح پر خلائی گاڑی کا مشن تعینات کیا ہے۔
خیال رہے کہ سابق سوویت یونین کا خلائی جہاز 1971 میں مریخ پر اترنے میں کامیاب ہوا تھا۔ تاہم اترنے کے چند سیکینڈز بعد اس کا زمین سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق 240 کلو گرام وزنی زہورونگ میں چھ سائنسی آلات نصب ہیں جن میں ہائی ریزولوشن ٹوپوگرافی کا کیمرہ بھی شامل ہے جو مریخ کا جغرافیہ، اس کی سطح اور فضا کا مطالعہ کرے گا۔
اگر زہورونگ مریخ میں کامیابی سے کام شروع کر دیتا ہے تو چین پہلا ملک ہو گا جس کا خلائی جہاز مریخ کے مدار میں چکر مکمل کرنے کے علاوہ سطح پر اپنی پہلی کوشش میں ہی اترنے میں کامیاب رہا ہے۔
شمسی توانائی سے چلنے والا زہورونگ 90 روزہ مشن کے دوران زندگی، پانی اور برف کے آثار سے متعلق معلومات اکٹھی کرے گا۔
چین کا خلا بازوں کے بغیر تیانوان-1 خلائی طیارہ جنوبی جزیرے ہینان سے گزشتہ برس جولائی میں مریخ کے لیے روانہ ہوا تھا۔
تیانون-1، جس کا مطلب آسمانوں سے سوال اور ایک قدیم چینی نظم سے لیا گیا نام ہے، چین کا مریخ کی جانب پہلا مشن ہے۔
یہ خلائی طیارہ چھ ماہ سے زائد کا سفر کرنے کے بعد رواں سال فروری میں مریخ کے مدار میں پہنچا تھا جس کے بعد سے وہ وہاں موجود تھا۔
رواں ماہ 15 مئی کو خلائی گاڑی، خلائی جہاز سے علیحدہ ہونے کے بعد مریخ کی سطح پر اتری تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
چین کی خلائی ایجنسی کی طرف سے رواں ہفتے بدھ کو مریخ کی حاصل کردہ پہلی تصویر جاری کی گئی تھی۔
تیانون۔1 مریخ پر بھیجے جانے والا تیسرا مشن ہے۔
اس مشن کے علاوہ 18 فروری کو امریکی مشن ‘جزیرو کریٹر’ مریخ پر اترنے میں کامیاب ہوا تھا۔
علاوہ ازیں متحدہ عرب امارات کا ‘ہوپ’ مشن بھی ہے جس کا مقصد مریخ پر اترنا نہیں تھا بلکہ اس کا مشن مریخ کے مدار میں رہتے ہوئے موسم اور ماحول سے متعلق معلومات اکٹھا کرنا تھا۔
خیال رہے کہ مریخ کی سطح پر موجود امریکی اور چینی مشن کے علاوہ ‘ناسا’ کا خلائی مشن بھی موجود ہے۔ جو کہ 2012 میں اترا تھا۔