شمسی توانائی نہ صرف ماحول دوست ہے بلکہ وافر مقدار میں موجود بھی ہے۔ لیکن اگر اس کے آلات کی ترقی پذیر دنیا میں بڑے پیمانے پر تنصیب کا مرحلہ درپیش ہو تو اس کی افادیت اور مالیت کےحوالے سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔
ہانگ کانگ میں ان دنوں ایک عالمی تجارتی میلہ جاری ہے جس میں چین سے تعلق رکھنے والی درجنوں کمپنیوں نے شمسی توانائی سے چلنے والی اپنی تیار کردہ اشیاء اور مصنوعات نمائش کے لیے پیش کی ہیں۔
تاہم 'ہانگ کانگ الیکٹرونکس فیئر' کے نام سے جاری اس میلے میں پیش کردہ بیشتر مصنوعات دنیا کی ایک چوتھائی آبادی، یعنی لگ بھگ ایک ارب 60 کروڑ افراد، کے کسی کام کی نہیں جو اپنی زندگیاں بجلی کے بغیر بسر کر رہے ہیں۔
ان افراد کی اکثریت افریقہ اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتی ہے اور ان علاقوں میں سورج کی تمازت اور دھوپ کی فراوانی کے باعث شمسی توانائی تیار کرنے کے ایسے پلانٹس کی اچھی کھپت ہوسکتی ہے جو سستے اور پائیدار ہوں۔
سولر پینلز، چارجرز اور دیگر برقی آلات تیار کرنے والی چین کے صوبے گوانگزو میں قائم ایک کمپنی کے سربراہ زونگ ژیاؤ جن کہتے ہیں کہ مارکیٹ کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے ان آلات کے تیار کنندہ اس سمت میں پیش رفت کر رہے ہیں۔
جن کا کہنا ہے کہ اپنی مصنوعات کی مسابقتی صلاحیت میں اضافے کی غرض سے ان کی کمپنی بیٹری کی کارکردگی کو بہتر بنانے پر کام کر رہی ہے۔ ان کے بقول وہ ایک جانب مخصوص سرکٹ بورڈز کے استعمال کے ذریعے توانائی کا زیاں کم سے کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری جانب ان کی کمپنی میں تیار کردہ سولر پینلز کی دھوپ کو توانائی میں ڈھالنے کی صلاحیت میں اضافہ کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
جن کہتے ہیں کہ پینل کی تیاری میں خاص اور جدید قسم کے سامان اور تیکنیک کے استعمال سے ایسا ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
تاہم شمسی توانائی کے حوالے سے کثرت سے اٹھنے والا ایک اہم سوال یہ ہے کہ آپ اس وقت کیاکریں گے جب دھوپ ہی میسر نہ ہو؟ ماہرین نے اس مسئلہ کے کئی تخلیقی حل ڈھونڈ نکالے ہیں۔ ان میں سرِ فہرست ایسے 'پینلز' کی تیاری ہے جو نہ صرف دھوپ بلکہ ہوا سے بھی بجلی پیدا کرسکیں۔
یہ حل قابلِ عمل ہے اور چین کے صوبے شین زین اور جرمنی میں سڑک کنارے نصب برقی قمقموں کے لیے اس نوع کے پینلز کا کامیابی سے استعمال کیا جارہا ہے۔
شمالی امریکہ اور یورپ میں کم سے کم جگہ گھیرنے اور زیادہ توانائی پیدا کرنے والے پینلز میں 'کرسٹلین سلیکان' نامی قدرے مہنگی ٹیکنالوجی کا استعمال ہوریا ہے۔
لیکن ماہرین ترقی پذیر ممالک کے لیے نسبتاً سستی 'تِھن فلم' ٹیکنالوجی کا استعمال زیادہ موثر قرار دیتے ہیں۔
مختلف کمپنیوں کی جانب سے متبادل توانائی سے چلنے والی ایسی سستی الیکٹرونک مصنوعات متعارف کرائی جارہی ہیں جو ان علاقوں میں بآسانی استعمال کی جاسکتی ہیں جو بجلی کے مرکزی نظام سے منسلک نہ ہوں۔
ہانگ کانگ کے تجارتی میلے میں ایسی 'فلیش لائٹس' بھی تھوک کے حساب سے فروخت کے لیے پیش کی گئی ہیں جن کی فی عدد قیمت صرف 35 سینٹ ہے۔
ان لائٹس کو بآسانی ہاتھ میں لے کر گھوما جاسکتا ہے اور مکمل طور پر چارج کیے جانے کی صورت میں یہ 20 گھنٹے تک روشن رہ سکتی ہیں۔
شمسی توانائی کی مقبولیت اور ترقی میں ہر گزرتے برس کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف گزشتہ ایک برس کے دوران دنیا بھر میں ریکارڈ تعداد میں سولر پینلز نصب کیے گئے جن سے حاصل ہونے والی مجموعی توانائی کا تخمینہ 18 گیگا واٹس لگایا گیا ہے۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان پینلز کی صرف ایک فی صد تعداد ترقی پذیر ممالک میں نصب کی گئی۔