تائیوان میں صدارتی اور عام انتخابات کے انعقاد سے صرف چند ہفتے پہلے تائیوان کے صدر ما ینگ جیو نے اعلان کیا ہے کہ وہ چینی صدر کے ساتھ سنگاپور میں براہ راست مذاکرات کریں گے۔
اس ہفتہ کو ہونے والی ملاقات 1949 کے بعد تائیوانی اور چینی رہنماؤں کے درمیان پہلی ملاقات ہو گی اور چینی حکام اس توقع کا اظہار کر رہے ہیں کہ دونوں خطوں کے درمیان تعلقات میں پیش رفت کے حوالے سے یہ ایک "بڑا تاریخی سنگ میل' ہو گا۔
تاہم تائیوان میں حزب اختلاف کے رہنما پہلے ہی اس بات چیت کے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں اور درجنوں رہنما اس کی مخالفت میں دارالحکومت میں متحرک ہو گئے ہیں۔
صدر ما کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ (اس ملاقات کے دوران) کسی بھی سمجھوتے پر دستخط نہیں ہوں گے اور ان مذاکرات کا مقصد دونون فریقوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنا اور" آبنائے تائیوان میں موجودہ صورت حال کو برقرار رکھنا ہے"۔
چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق ملاقات کے دوران دونوں رہنما ایک دوسرے کو صدر کہنے کی بجائے "مسٹر" کہہ کر مخاطب کریں گے۔ دونوں حکومتیں سرکاری طور پر ایک دوسرے کو تسلیم نہیں کرتیں۔
دونوں رہنما دوپہر کو ایک مختصر ملاقات کرنے کے بعد الگ الگ نیوز کانفرنس کا انعقاد کریں گے اور دوبارہ شام کے کھانے پر جمع ہوں گے۔
تائیوان اور چین کے تعلقات صدر ما ینگ جیو کے دوراقتدار میں بہتر ہوئے ہیں تاہم اس کے ساتھ عوامی خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر نوجوان ووٹروں کو تائیوان کے چین پر زیادہ انحصار پر تشویش ہے۔
اس ملاقات کے اعلان کے چند گھنٹوں کے بعد ہی مظاہرین تائیوان کی قانون ساز اسمبلی اور قریب ہی واقع صدارتی دفتر کے باہر جمع ہونا شروع ہو گئے۔ ان میں سے کئی ایک نے صدر ما پر زور دیا ہے کہ وہ اس ملاقات کو منسوخ کردیں جب کہ دیگر کا خیال ہے کہ اس ملاقات کے بارے میں عوامی رائے کو مد نظر نہیں رکھا گیا ہے۔
حزب مخالف کی جماعت ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی 'ڈی پی پی' کے ایک ترجمان چینگ یون پینگ نے کہا کہ یہ ملاقات انتخابی مصلحت کے لیے کی جارہی ہے۔ انہوں نے ان خدشات کا بھی اظہار کیا ہے کہ چینی رہنما شی کے ساتھ بند کمرے میں ملاقات میں کوئی بھی غیر مجاز معاہدہ کر سکتے ہیں۔
صدر ما کی جماعت نے اپنے دور اقتدار میں چین کے ساتھ 23 معاہدے کیے ہیں۔ تاہم گزشتہ سال چین اور تائیوان کے درمیان مجوزہ تجارتی معاہدے کو قانون ساز اسمبلی کے شق وار جائزے کے بغیر منظوری کی کوشش کی شدید مخالفت سامنے آئی جب کہ نوجوان مظاہرین نے تائیوان کی پارلیمان کی عمارت پر قبضہ بھی کر لیا تھا۔
1949کی خانہ جنگی کے بعد تائیوان چین سے علیحدہ ہو گیا تھا۔ ییجنگ اب بھی اسے اپنا ایک ایسا صوبہ قرار دیتا ہے جو بقول اس کےایک دن چین کے ساتھ دوبارہ متحد ہو جائے گا۔