چین کے زیرِ انتظام علاقے تبت کے ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے پولیس کو علاقے میں موجود بدھ مت کی عبادت گاہوں کی نگرانی سخت کرنے کا حکم دیا ہے جس کا بظاہر مقصد قریبی صوبے سیچوان میں تبتی نژاد باشندوں کی جانب سے جاری احتجاجی مظاہروں کا زور توڑنا ہے۔
چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ میں آنے والی اطلاعات کے مطابق تبت کی مقامی 'کمیونسٹ پارٹی' کے رہنما کی ذالا نے حکام کو علاقے کے "استحکام کو برقرار" رکھنے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔
عہدیدار نے پولیس حکام سے کہا ہے کہ وہ "علیحدگی پسند" اور "مجرمانہ" سرگرمیوں کے خلاف سخت کاروائی کریں۔ چینی حکام تبتی باشندوں کے جلاوطن روحانی رہنما دلائی لاما اور ان کے حامیوں پر اس نوعیت کی سرگرمیوں کے الزامات عائد کرتے ہیں۔
تبت میں بدھ عبادت گاہوں کی کڑی نگرانی کا حکم ایک ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب پڑوسی صوبے سیچوان میں تبتی باشندوں اور پولیس کے درمیان ایک ہفتے تک جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد علاقے میں ہزاروں پولیس اہلکاروں پر مشتمل اضافی نفری تعینات کردی گئی ہے۔
تبتی باشندوں کی جلاوطن تنظیموں نے عینی شاہدین کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس کی جانب سے گزشتہ ہفتے کم از کم تین احتجاجی مظاہروں پر فائرنگ کے نتیجے میں سات افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
بعض اطلاعات میں تشدد کی حالیہ لہر کو چند تبتی باشندوں کی جانب سے چین کے نئے سال کی گزشتہ ہفتے ہونے منائی گئی تقریبات میں شرکت سے انکار سے جوڑا جارہا ہے۔
مغربی نشریاتی اداروں کو علاقے میں ہونے والے مظاہروں کی کوریج سے بھی روک دیا گیا ہے۔
خطے میں جاری کشیدگی میں گزشتہ برس اس وقت اضافہ ہوگیا تھا جب دلائی لاما کی تبت واپسی کا مطالبہ کرنے والے ایک بدھ بھکشو نے صوبہ سیچوان میں واقع ایک عبادت گاہ میں خودسوزی کرلی تھی۔
اس واقعے کے بعد سے اب تک کم از کم 15 بدھ بھکشو اور راہبائیں بطورِ احتجاج خودسوزی کرچکی ہیں۔
یاد رہے کہ چین نے 50 برس قبل تبت کو اپنے انتظام میں لے لیا تھا جس کے بعد دلائی لاما اور دیگر تبتی رہنما شمالی بھارت فرار ہوگئے تھے۔ چین کا الزام ہے کہ دلائی لاما تبت کو چین سے علیحدہ کرنے کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں تاہم تبتی رہنما اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔