چین میں خواتین حقوق کی متعدد معروف سرگرم کارکن سرکاری تحویل میں لے لی گئی ہیں، جنھیں بین الاقوامی یوم خواتین منائے جانے کے ایک ہی ہفتے بعد گرفتار کیا گیا۔
یہ بات، وائس آف امریکہ کی نمائندہ، شنون وان سانت نے ہانگ کانگ سے اپنی رپورٹ میں بتائی ہے۔
ولیم نِی چین کے تحقیق کار ہیں، جو ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ سے وابستہ ہیں۔ بقول اُن کے، ’حقوق انسانی کی سرگرم پانچ چینی کارکنوں کو باضابطہ طور پر پولیس نے حراست میں لیا ہے۔ گرفتاری کے بعد اُن پر فوجداری مقدمات کے تحت کارروائی ہونے والی ہے۔ اِن خواتین کی وکیل کا کہنا ہے کہ اُن پر الزام ہے کہ وہ جھگڑوں میں ملوث رہی ہیں، اور مسائل کھڑے کر رہی ہیں۔ یہ ایک عام سا الزام ہے جو چینی منحرفین کے خلاف استعمال ہوتا ہے‘۔
’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ کے اہل کار نے بتایا کہ، ’دیکھا جائے تو، بیجنگ میں منعقدہ خواتین کے اجلاس کی یہ بیسویں سالگرہ ہے، جو خواتین کے حقوق کا تاریخی سال ہونے کے علاوہ خواتین کے حقوق کے ضمن میں چین کے عزم کا غماز ہے‘۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ، ’اس لیے، اجلاس کی بیسویں سالگرہ کے موقعے پر جب جسمانی تشدد کے خلاف احتجاج جاری تھا، پانچ خواتین کا گرفتار کیا جانا، ایک لمحہٴفکریہ ہے؛ امید کی جاتی ہے کہ حکومت چین درست فیصلہ کرتے ہوئے، اِن خواتین کی فوری رہائی کے احکامات جاری کرے گی‘۔
چھ مارچ کو خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی 10 سرگرم خواتین کارکنان کو زیر حراست لیا گیا۔ وہ خواتین کے بین الاقوامی دِن کے موقع پر آٹھ مارچ کو مظاہرہ کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ چین میں عوامی سفر کے لیے استعمال ہونے والی گاڑیوں پر اسٹکر چسپاں کرنے کی خواہاں تھیں، جن میں ’خواتین پر جسمانی تشدد بند کیا جائے‘ کے نعرے درج ہوں۔
ریل گاڑیوں اور بسوں میں خواتین کے خلاف جسمانی تشدد ایک عام سی بات ہے، جس معاملے پر گذشتہ برس چین میں مباحثہ جاری رہا۔
بعدازاں، اِن میں سے پانچ خواتین کو رہا کردیا گیا۔ لِی ٹِنگ ٹِنگ، وائی ٹِنگ ٹِنگ، وانگ مان، زینگ چوران اور وو رونگروگ زیر حراست ہیں۔ اُن کی باضابطہ گرفتاری قانونی چارہ جوئی کی راہ ہموار کرتی ہے، جس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خواتین کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر اِن خواتین پر مقدمہ چلایا جاتا ہے تو یہ چین کے متمدن معاشرے میں صنف نازک کے خلاف سخت کارروائی کی ایک مثال ہوگی۔
نِی کہتی ہیں کہ یہ امر کہ اِن خواتین کو چین کے کئی ایک مشرقی شہروں سے گرفتار کیا گیا، حکومت چین کی جانب سے ایک وسیع تر اور مربوط پالیسی کا عندیہ ملتا ہے۔ اُن کی گرفتاری ایسے وقت عمل میں آئی ہے جب چین کے قومی پارلیمان کا سالانہ اجلاس جاری تھا، ایسے میں حکومت نے دارالحکومت میں پولیس اور سکیورٹی اہل کاروں کو گرفتار کے احکامات جاری کیے۔
بین الاقوامی سطح پر اِن گرفتاریوں پر تنقید کی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر،سمنتھا پاور نے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ خواتین کی گرفتاری؛ اور غیر سرکاری اداروں کی جانب سے’ آفاقی حقوق کے تحفظ کی جدوجہد‘ کے لیے کیے جانے والے کام میں رکاوٹ ڈالنا، ایک افسوس ناک امر ہے۔
یورپی یونین نے بھی اُن کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔