سابق چینی رہنما ماؤزے تنگ کے دور میں مقامی رہنما گندم کی پیداوار کی جعلی رپورٹس بنایا کرتے تھے۔60 کی دہائی میں چین میں جاری مسائل پر بات کرتے ہوئے امریکی ریسرچر کلیٹن براؤن کہتے ہیں کہ اعلیٰ عہدے دار اس قسم کی رپورٹس پر کم ہی سوالات اٹھایا کرتے تھے، اس کی وجہ یا تو خوف تھا یا لاعلمی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہی پرانا رویہ چین میں لوٹ آیا ہے جہاں کرونا وائرس کی وبا کے دوران بھی اور اس کے بعد بھی مسلسل معاشی نمو رپورٹ کی جا رہی ہے۔
ہنوئی میں میکونگ اکنامکس کے چیف معیشت دان ایڈم مکارتھی نے وائس آف امریکہ کے رالف جیننگز کے ساتھ بات کرتے ہوئے خیال ظاہر کیا کہ نچلی سطح پر سیاسی وجوہات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے اعدادوشمار دیے جا رہے ہیں جن کے بارے میں یا تو اعلیٰ عہدےدار لاعلم ہیں یا وہ اس بارے میں مزید جاننا نہیں چاہتے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین میں یہ مستقل مسئلہ رہا ہے۔
چین کے اعداد و شمار کے قومی بیورو نے 2022 کے جنوری سے مارچ کے عرصے میں 4.8 فیصد شرح نمو رپورٹ کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق صنعتی شعبے میں ترقی کی شرح 6.5 فیصد رہی۔
کرونا کی وبا سے پہلے چین کی جانب سے رپورٹ کیے گئے معاشی اشاریوں پر کم ہی سوالات اٹھے ہیں لیکن 1800 کھرب ڈالر کی اس معیشت کے اشاریوں پر اب سوالات اٹھ رہے ہیں۔
اٹلانٹک کونسل کے ایشیا سیکیورٹی انیشی ایٹو کے سینئیر فیلو ڈیکسٹر رابرٹس کے مطابق چین کی مجموعی قومی پیداوار کے جو اعداد سامنے آ رہے ہیں اس پر چین سے باہر کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان میں جھول نظر آ رہا ہے۔
موجودہ دنوں میں کرونا وبا کی وجہ سے چین نے اپنے شہر شنگھائی میں لاکھوں افراد کو گھروں میں رہنے کا حکم دیا۔ اس کی وجہ سے صنعتی طلب و رسد، صنعتی پیداوار اور دنیا کی سب سے بڑی بندرگاہ سے مال کی رسد میں مشکلات پیدا ہوئیں۔ اس کے علاوہ چین میں 2021 کے اواخر سے ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیاں، جن میں علی بابا بھی شامل ہے پر اجارہ داری قوانین اور صارفین کے ڈیٹا کے غلط استعمال پر کارروائی کی جا رہی ہے جب کہ امریکی کمپنی گولڈ مین ساچیز نے رپورٹ کیا کہ ان کی تحقیق کے مطابق چین میں پراپرٹی مارکیٹ میں اس برس بھی بہت سے لوگ نادہندگی کا شکار ہوتے رہے ہیں۔
ہیریٹج فاؤنڈیشن ریسرچ گروپ نے 2020 میں ایک رپورٹ میں لکھا کہ اعداد وشمار کے سلسلے میں غیر شفافیت چین کی تاریخ کا خاصہ رہا ہے۔
ڈیکسٹر رابرٹس کے مطابق چین کی کمیونسٹ پارٹی بڑے مجموعی قومی پیداوار کے اعداد و شمار کے پیچھے اس لیے بھاگ رہی ہے کیونکہ اس نے وبا کو بہترین کنٹرول کرنے کے دعوے کر رکھے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پچھلے مہینے چین کی درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی جب کہ برآمدات بھی سست روی کا شکار ہیں۔
رابرٹس کا کہنا تھا کہ کچھ اعداد و شمار ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان کے مطابق ایک طرف تو سیمنٹ اور سٹیل کی پیداوار میں کمی دیکھنے کو آ رہی ہے جب کہ دوسری طرف تعمیرات کے شعبے میں سرمایہ کاری میں 9.3 فیصد اضافہ رپورٹ ہوا ہے۔
چین کے امریکہ میں سفارت خانے کے ترجمان لیو پینگیو نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ معیشت کے کچھ شعبے مشکلات کا شکار ہیں لیکن مجموعی طور پر معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرونا وبا کی وجہ سے معیشت کے کئی حصے دباؤ کا شکار ہیں۔ لیکن، بقول ان کے، پچھلے دو برس سے سرمایہ کاری میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ان کے مطابق، چین اپنی معیشت کو سنبھالنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے جس کی بدولت صنعتی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔