بھارت میں اس وقت ایودھیا میں زیرِ تعمیر رام مندر کے مجوزہ افتتاح کا معاملہ زیرِ بحث ہے۔ ہندو برادری کے بڑے حلقے میں جوش و خروش ہے اور یہ بیانیہ عام ہے کہ 500 سال کی جدوجہد کے بعد رام اپنے گھر واپس آ رہے ہیں۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی 22 جنوری کو اس مندر کا افتتاح کریں گے۔ اس تقریب کی تیاری 16 جنوری سے شروع ہو گئی ہے۔
ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کی تیاریاں؛ بابری مسجد تنازع میں کب کیا ہوا؟
مسلمانوں کے ایک متفقہ پلیٹ فارم 'آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ' نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں وزیرِ اعظم مودی کے ہاتھوں رام مندر کے افتتاح کو سیکولرازم اور جمہوریت کے منافی قرار دیا ہے۔
جس مقام پر رام کی مورتی نصب کی جائے گی اسے 'گربھ گرہ' یعنی رام کی جائے پیدائش کہا جاتا ہے۔ مندر ٹرسٹ کے مطابق اس کے لیے سونے کے دروازے نصب کیے گئے ہیں جب کہ گجرات سے منگوائی گئی 108 فٹ لمبی دھوپ کی چھڑی روشن کردی گئی ہے۔
دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس کی مہک 50 کلو میٹر تک جائے گی۔
افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے سات ہزار سے زائد مہمانوں کو دعوت نامے ارسال کیے گئے ہیں جن میں سیاست دان، سادھو سنت، صنعت کار، کھلاڑی، بالی وڈ شخصیات اور سرکاری اہلکار شامل ہیں۔
SEE ALSO: رام مندر کے افتتاح کے معاملے پر تنازع، اپوزیشن اور ہندو مذہبی پیشواؤں کا بائیکاٹ کا اعلانالبتہ ہندو مذہب کے چاروں بڑے مذہبی رہنماؤں یعنی شنکر آچاریوں میں سے بعض کو دعوت نامہ دیا گیا ہے جب کہ بعض کو مدعو نہیں کیا گیا۔
تاہم چاروں شنکر آچاریوں نے اس تقریب کو ہندو مذہب کے خلاف قرار دیتے ہوئے اس میں شرکت سے انکار کردیا ہے۔
تقریب میں شرکت کے لیے ایودھیا میں نو تعمیر شدہ ہوائی اڈے پر 22 جنوری کو 50 سے زائد خصوصی طیارے لینڈ کریں گے۔
واضح رہے کہ نو نومبر 2019 کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلے میں اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے بابر مسجد کی اراضی کو رام مندر کے لیے دے دیا تھا جس کے بعد مندر کی تعمیر کا راستہ ہموار ہوا تھا۔
تاریخی پس منظر
تاریخی شواہد کے مطابق بابری مسجد کی تعمیر سن 1528 میں مغل حکمراں بابر کے حکم پر میر باقی نے کرائی تھی۔ ہندوؤں کی جانب سے 1859 میں دعویٰ کیا گیا کہ بابری مسجد کی تعمیر رام مندر کو توڑ کر کی گئی ہے۔
لہٰذا اس وقت کی برطانوی حکومت نے مسجد کے ارد گرد خاردار تاروں کی باڑ لگا دی اور ہندوؤں کو اس کے باہر پوجا کی اجازت دے دی۔
مارچ 1934 میں فریقین میں ٹکراؤ ہوا جس کے نتیجے میں مسجد اور اس کے گنبد کو نقصان پہنچا۔ بعد ازاں برطانوی حکومت نے اس کی مرمت کروا دی۔
سن 1949 میں 21 اور 22 دسمبر کی درمیانی شب میں کچھ لوگوں نے بابری مسجد کے اندر مورتی رکھ دی اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ رام جی 'پرکٹ' (ظاہر) ہوئے ہیں۔
بعد ازاں مسجد کے باہر تعینات ہندو کانسٹیبل نے صبح میں پولیس میں اس کی رپورٹ درج کرائی جس میں کہا کہ کچھ لوگوں نے چپکے سے مسجد میں مورتی رکھ دی ہے۔
SEE ALSO: ایودھیا میں رام مندر اور چھ ارب ڈالرز کے ترقیاتی منصوبے، مسلم کمیونٹی کو کیا تحفظات ہیں؟تاہم فیض آباد کے ضلعی مجسٹریٹ کے کے نائر نے یہ کہتے ہوئے مسجد سے مورتیاں نکلوانے سے انکار کردیا کہ اس سے فساد پھوٹ پڑے گا۔
انہوں نے مسجد میں نماز پر پابندی عائد کردی۔ نائر بعد ازاں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں شامل ہوئے اور رکن پارلیمان منتخب ہوگئے۔
اس معاملے پر فریقین نے 1950 میں فیض آباد کی عدالت میں کیس داخل کیا اور نماز اور پوجا کی اجازت مانگی۔ عدالت نے ایک پجاری کو مسجد کے اندر پوجا کرنے کی اجازت دے دی لیکن نماز کی اجازت نہیں دی۔
اس درمیان ہندو فریقوں کی جانب سے تالا کھولنے اور پوجا کرنے کی اجازت دینے کے لیے کئی درخواستیں داخل کی گئیں۔ سن 1984 میں رام جنم بھومی تحریک نے زور پکڑا۔ ہندوؤں کی ایک تنظیم 'وشو ہندو پریشد' (وی ایچ پی) نے اس کی قیادت کی اور بی جے پی نے اس کا ساتھ دیا۔
بی جے پی رہنما ایل کے آڈوانی اور دوسروں نے کئی رتھ یاترائیں نکالیں۔
فیض آباد کی ایک عدالت نے 1986 میں بابری مسجد کا تالا کھولنے اور اس میں پوجا کرنے کی اجازت دے دی۔ مسلمانوں کی جانب سے اس فیصلے پر ملک گیر احتجاج کیا گیا۔
مسلمانوں نے بابری مسجد بازیابی کی تحریک چلانے کے لیے 'بابری مسجد ایکشن کمیٹی' نامی تنظیم قائم کی۔
اس کے بعد نو نومبر 1989 کو راجیو گاندھی کی حکومت نے بابری مسجد کے سامنے 'شلا پوجن' کی اجازت دی یعنی ایسی اینٹوں کی پوجا کی گئی جو منتظمین کے بقول رام مندر کی تعمیر میں استعمال ہوں گی۔
ستمبر 1990 میں ایل کے آڈوانی نے سومناتھ، گجرات سے ایودھیا تک ایک بڑی رتھ یاترا کا آغاز کیا۔ اس کے منتظم موجودہ وزیرِ اعظم نریندر مودی تھے۔
اس یاترا کے دوران متعدد مقامات پر ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ لہٰذا اُس وقت کے بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو نے آڈوانی کو سمستی پور بہار میں گرفتار کر لیا۔
SEE ALSO: بھارت کی گیان واپی مسجد کے سروے کا حکم؛ ’کھدائی ہوئی تو بڑا تنازع ہو جائے گا‘اسی سال ایک پروگرام کے تحت ایودھیا میں جمع ہونے والی ایک بھیڑ نے مسجد پر حملہ کیا۔ اُس وقت کے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو نے بھیڑ پر فائرنگ کرنے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں کئی افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی 1991 کے پارلیمانی انتخابات میں 121 نشستوں کے ساتھ ملک میں دوسری بڑی پارٹی کی حیثیت سے ابھری۔ اسی کے ساتھ اتر پردیش میں بی جے پی کے کلیان سنگھ کی حکومت قائم ہوئی۔
مرکزی حکومت نے 1991 میں 'پلیسز آف ورشپ ایکٹ' بنایا جس کے مطابق عبادت گاہوں کی 1947 تک کی پوزیشن کو برقرار رکھا گیا اور یہ کہا گیا کہ ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی۔ تاہم بابری مسجد کو اس قانون سے مستثنیٰ رکھا گیا۔
ادھر وی ایچ پی اور بی جے پی کی تحریک زور شور سے جاری رہی اور بالآخر چھ دسمبر 1992 کو ایودھیا میں پورے ملک سے بلائی گئی بھیڑ نے بابری مسجد کو منہدم کر دیا۔
بابری مسجد کو منہدم کیے جانے کے وقت مرکز میں کانگریس کے نرسمہا راؤ کی حکومت تھی۔
اُن پر الزام ہے کہ انہوں نے بابری مسجد کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی کیوں کہ جب بھی انہیں صورتِ حال بتانے کی کوشش کی جاتی تو یہی جواب ملتا کہ راؤ صاحب پوجا کر رہے ہیں۔
کلیان سنگھ کی حکومت نے بھی بھیڑ کو ر وکنے کی کوئی کوشش نہیں کی بلکہ مسجد کے انہدام کے بعد ان افراد کو بسوں اور ٹرینوں سے ان کے گھروں کو بحفاظت روانہ کیا گیا۔ اس کے بعد کلیان سنگھ نے حکومت سے استعفیٰ دے دیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
نرسمہا راؤ کی حکومت نے 16 دسمبر 1992 کو انہدام کی تحقیقات کے لیے 'لبراہن جانچ کمیشن' کے قیام کا اعلان کیا۔ سینٹرل بیور آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے اس معاملے کی جانچ کی اور اس نے آڈوانی سمیت 32 افراد کو انہدام کا ملزم قرار دیا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے 1994 میں کلیان سنگھ کو بابری مسجد کے انہدام کا قصوروار پایا اور انہیں عدالت میں ایک دن کھڑے ہونے کی سزا دی اور 20 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا۔
تاہم لکھنؤ کی سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے 30 ستمبر 2020 کو آڈوانی سمیت تمام ملزموں تمام الزامات سے بری کر دیا۔
'لبراہن کمیشن' نے اپنی رپورٹ 30 جون 2009 کو اُس وقت کے وزیرِ اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کو پیش کی جس میں اس نے نرسمہاراؤ حکومت کو بابری مسجد انہدام کا قصوروار قرار دیا۔
اس کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ نے 2010 میں بابری مسجد کی جگہ کو تین حصوں میں تقسیم کرکے دو حصے دو ہندو فریقوں اور ایک حصہ مسلم فریق کو دینے کا فیصلہ سنایا جسے تمام فریقوں نے ماننے سے انکار کر دیا۔
رام جنم بھومی اور بابری مسجد کی تحریکوں کے زور پکڑنے کے دوران سابق وزرائے اعظم چندر شیکھر، اٹل بہاری واجپئی اور شنکر آچاریہ سروپانند اور سابق رکن پارلیمنٹ سید شہاب الدین نے اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے کئی آپشنز پیش کیے لیکن اسے ماننے سے انکار کردیا گیا۔
'موجودہ ایودھیا اصل ایودھیا نہیں ہے'
یکم فروری 1987 کو بھیس بدل کر بابری مسجد میں داخل ہونے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار معصومراد آبادی کے مطابق 1949 کے ایک سرکاری حکم نامے کے مطابق بابری مسجد کے اطراف میں 500 میٹر تک مسلمانوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ لہٰذا انہیں بھیس بدلنا پڑا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ بابری مسجد کے اندرونی حصے میں سفر پتھر کی صفیں بنی ہوئی تھیں۔ درمیان والے گنبد کے عین نیچے لکڑی کے اسٹیج نما تین فریم رکھے ہوئے تھے جن پر پتھر کی ایک مورتی رکھی تھی اور باقی تصویریں شیشوں کے فریم میں رکھی ہوئی تھیں۔
ان کے مطابق منبر کے اوپر ہنومان کا مجسمہ نصب تھا۔ مرکزی گنبد کے نیچے کے حصے کو جہاں یہ مورتیاں رکھی ہوئی تھیں سرخ کپڑے سے ڈھک دیا گیا تھا۔ عقیدت مند سات فٹ کی دوری سے مورتیوں کا درشن کرتے تھے۔
بابری مسجد، رام جنم بھومی تنازعہ پر انگریزی، اردو اور ہندی میں متعدد کتابیں تصنیف کی جا چکی ہیں۔ ان میں ایودھیا کے ایک صحافی اور ہندی اخبار 'جن مورچہ' کے ایڈیٹر شیتلا سنگھ کی کتاب 'ایودھیا: رام جنم بھومی بابری مسجد کا سچ' قابل ذکر ہے۔
انہوں نے مختلف تاریخی شواہد سے یہ ثابت کیا ہے کہ بابری مسجد کی جگہ پر پہلے کوئی مندر نہیں تھا۔ ان کے بقول آزادی کے فوراً بعد پیدا ہونے والا یہ تنازع دراصل اتر پردیش کانگریس کی اندرونی لڑائی کا نتیجہ تھا جس کا آر ایس ایس اور بی جے پی نے فائدہ اٹھایا۔
SEE ALSO: مودی کا بھارت میں یونیفارم سول کوڈ پر اصرار؛ مسلم تنظیمیں معترض کیوں ہیں؟'آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ' کے سابق اسسٹنٹ جنرل سیکریٹری محمد عبد الرحیم قریشی مرحوم نے اپنی انگریزی کتاب 'ایودھیا کا تنازعہ: رام جنم بھومی افسانہ ہے حقیقت نہیں' میں تاریخی شواہد سے یہ ثابت کیا ہے کہ موجودہ ایودھیا اصل ایودھیا نہیں ہے۔
لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس سے وابستہ تاریخ دانوں نے اپنی کتابوں میں دعویٰ کیا ہے کہ بابر کے حکم سے رام مندر کو توڑ کر بابری مسجد کی تعمیر کی گئی تھی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جس جگہ منبر تھا وہیں رام پیدا ہوئے تھے۔
ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ رام مندر کی تعمیر کے لیے 500 برس کے دوران لاکھوں ہندوؤں نے قربانی دیں۔
البتہ سپریم کورٹ نے 2019 کے اپنے فیصلے میں واضح طور پر کہا کہ بابری مسجد کے نیچے کسی مندر کی باقیات یا کسی مندر کو توڑ کر بابری مسجد کی تعمیر کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس نے بابری مسجد کے انہدام کو آئین و قانون کے منافی قرار دیتے ہوئے اسے ایک جرم قرار دیا تھا۔