رواں ہفتے امریکی میڈیا میں آنے والی کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صدر براک اوباما نے لیبیا کے حکومت مخالف باغیوں کو امریکہ کی جانب سے مدد فراہم کرنے کیلیے ایک خفیہ آپریشن کی منظوری دی ہے۔ 'وہائٹ ہاؤس' نے مذکورہ اطلاعات کو 'انٹیلی جنس میٹر' قرار دیتے ہوئے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔
'وی او اے انٹرنیشنل ایڈیشن' کے میزبان پال ویسٹ فیلنگ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں 'وائس آف امریکہ ' کے انٹیلی جنس سے متعلق امور کے ماہر گیری تھامس نے میڈیا میں آنے والی ان اطلاعات کا تجزیہ کیا ہے۔
تھامس کہتے ہیں کہ اس وقت یہ واضح نہیں کہ سی آئی اے لیبیا میں کس حد تک مداخلت کررہی ہے، تاہم ان کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ امریکی خفیہ ایجنسی ایسے کئی اقدامات اٹھانے کی پوزیشن میں ہے جن کے ذریعے لیبیا کی صورتِ حال پہ اثر اندازہوا جاسکتا ہے۔
مذکورہ انٹرویو کے کچھ اقتباسات 'اردو وی او اے' کے قارئین کیلیے پیش ہیں:
سوال۔ 'خفیہ کاروائی (کوورٹ آپریشن)' درحقیقت ہے کیا اور اس کیلیے صدر کی منظوری کیوں درکار ہوتی ہے؟
تھامس۔ 1970ء کی دہائی میں سی آئی اے کے کئی اسکینڈلز سامنے آئے تھے جن میں امریکی خفیہ ایجنسی کئی ممالک کی حکومتوں کا تختہ الٹنے اور بین الاقوامی رہنمائوں کے قتل کی کوششوں جیسی کاروائیوں میں ملوث پائی گئی تھی۔ لہذا امریکی مقننہ کی جانب سے ایک قانون کی منظوری دی گئی جس کی رو سے سی آئی اے کی جانب سے آئندہ ایسے کسی بھی خفیہ آپریشن کے آغاز کیلیے صدرِ امریکہ کی منظوری کو لازمی قرار دیا گیا جس کیلیے ضروری تھا کہ صدر کو کاروائی کی اہمیت اور ضرورت سے متعلق مکمل آگاہی دی جائے۔
اسی ضمن میں "خفیہ کاروائی" کی تعریف بھی متعین کی گئی جس کا مقصد ایک ایسی سرگرمی سے لیا جاتا ہے جس کے ذریعے امریکہ کی بظاہر مداخلت کا تاثر دیے بغیر کسی ملک کی معاشی، فوجی یا سیاسی صورتِ حال کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔
سوال- امریکی صدر کی جانب سے لیبیا میں آپریشن کی دی جانے والی منظوری کس نوعیت کی ہے؟ آیا یہ مختلف امور کا تفصیلی احاطہ کرتی ہے یا یہ ایک بحیثیت مجموعی قسم کی منظوری ہے جن میں جزیات پر بات نہیں کی گئی ہوگی؟
تھامس۔ اس طرح کے آپریشنز کی منظوری بہت مخصوص بھی ہوسکتی ہے جن میں صرف چند اقدامات اٹھانے کی اجازت دی جائے اور اس میں ایک طرح سے کچھ بھی کر گزرنے کی کھلی چھٹی بھی دی جاسکتی ہے۔ اس بارے میں ہمارے پاس کوئی حتمی معلومات نہیں پہنچی ہیں کیونکہ یہ پورا عمل خفیہ ہے۔ 'وہائٹ ہاؤس' اور سی آئی اے اس پہ تبصرہ کرنے سے انکار کرچکے ہیں۔ لہذا ہمیں صرف اتنا ہی علم ہوسکا ہے کہ اس قسم کے کسی آپریشن کی منظوری دی گئی ہے جس میں سی آئی اے کو لیبیا میں کچھ خفیہ اقدامات اٹھانے کی اجازت دی گئی ہے۔
سوال- کیا اس طرح کے کسی آپریشن سے لیبیا میں امریکہ کے حالیہ کردار میں کوئی تبدیلی آئے گی؟
تھامس۔ اس بارے میں اس وقت کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ سی آئی اے کی جانب سے لیبیا کے معاملات میں کس حد تک مداخلت کی جارہی ہے۔ اگر سی آئی اے خود کو لیبیا کے باغیوں کے ساتھ رابطوں، ان کی کارکردگی کی جانچ پڑتال اور زمینی صورتِ حال کی معلومات اکٹھی کرنے تک محدود رکھتی ہے تو یہ ایک الگ بات ہے۔ لیکن اگر وہ لیبیا میں طاقت کے توازن میں تبدیلی کیلیے کوئی عملی کردار ادا کرتے ہیں اور اس مقصد کیلیے اتحادی افواج کو فضائی حملوں میں معاونت اور باغیوں کو اسلحہ اور ٹریننگ کی فراہمی جیسے راستوں کا انتخاب کرتے ہیں تو یہ ایک اہم پیش رفت ہوگی۔
گوکہ صدر اوباما پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ امریکہ نے لیبیا کے باغیوں کو مسلح کرنے کے حوالے سے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے ، لیکن ایسا نظر آتا ہے کہ وہ بالآخر یہ قدم اٹھانے پر مجبور ہونگے۔ اور اگر امریکہ لیبیا کے حکومت مخالف گروہوں کو کوئی ایسی مدد فراہم کرنے کا فیصلہ کرتا ہے جس سے ان کی حملہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتو اس کا مطلب ہوگا کہ امریکہ اپنی پہلے طے کردہ حدود سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ امریکہ لیبیا کے باغیوں کو براہ ِراست مددفراہم کرکے وہاں قیادت کی تبدیلی کے عمل میں شریک ہوگیا ہے۔ اور اس طرح کے عمل سے امریکی افواج کے لیبیا میں جاری مشن کیلیے پیش کی جانے والی یہ توجیح کہ اس کا مقصد وہاں کسی انسانی المیے کو جنم لینے سے روکنا ہے، محض ایک افسانہ ہوکے رہ جائے گی۔ کیونکہ اس صورت میں امریکہ مسئلہ کا ایک فریق بن چکا ہوگا۔
سوال- کیا لیبیا میں کچھ مخصوص خفیہ اقدامات (کلینڈسٹائن ایکشن)اٹھانے کی غرض سے امریکہ سی آئی اے کو استعمال کرسکتا ہے؟ کیا اس کیلیے بھی صدارتی منظوری حاصل کرنا ضروری ہوگا؟
تھامس۔ ایسا ہوسکتا ہے اور میرا خیال ہے کہ ایسا پہلے سے ہورہا ہےکیونکہ میری رائے میں لیبیا کی موجودہ صورتِ حال کی تشکیل میں سی آئی اے کسی نہ کسی درجے میں ضرور شریک رہی ہے۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ لیبیا کے معاملات میں سی آئی اے کی جانب سے اس طرح کی مداخلت کسی باقاعدہ خفیہ آپریشن کی صورت میں نہیں رہی ہوگی۔ یعنی ان کوششوں کا مقصدنتائج پہ اثرانداز ہونا نہیں رہا ہوگا بلکہ اس طرح کے اقدامات صرف ضروری معلومات اکٹھی کرنے کیلیے اٹھائے گئے ہونگے۔
میں سمجھتا ہوں کہ لیبیا کے وزیرِخارجہ موسیٰ کوسیٰ کے معمر قذافی کا ساتھ چھوڑ کر اتحادیوں سے آملنے کے معاملے میں بھی سی آئی اے اور برطانوی خفیہ ایجنسی 'ایم آئی 6' کا ہاتھ رہا ہوگا۔موسیٰ کوسیٰ ماضی میں لیبیا کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ رہے ہیں اور اس حیثیت میں لازماً ان کے امریکی سی آئی اے اور برطانوی 'ایم آئی 6' سے رابطے رہے ہونگے۔ سو اس عمل کو ان ایجنسیوں کی خفیہ کوششوں کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے اور اس طرح کی کوششوں کیلیے صدارتی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔