شام کے شہر رقہ کا مکمل قبضہ داعش کے شدت پسندوں سے واگزار کروانے کے لیے امریکہ کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کی بڑی کارروائی سے قبل یہاں سے شہریوں کا انخلا شروع ہو گیا ہے۔
حالیہ دنوں میں سیکڑوں شہری داعش کے زیر قبضہ علاقوں سے منتقل ہونے کے لیے کوشاں رہے اور اس میں اتحادی فورسز کی طرف سے کی جانے والی گولہ باری میں کمی سے بھی مدد ملی۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ شہر کے بعض حصے بشمول ایک اسٹیڈیم اور قومی اسپتال اب بھی حالیہ ہفتوں میں پسپا ہونے والے داعش کے جنگجوؤں کے قبضے میں ہیں۔
شہر سے منتقل ہونے میں کامیاب ہونے والوں میں اکثریت شدید غذائی قلت کا شکار ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے ایک ترجمان کے مطابق یہاں سے بچ نکلنے میں کامیاب ہونے والوں نے شہر کی ابتر صورتحال کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور ان کے بقول وہاں نہ تو خوراک اور پانی ہے اور نہ ہی ادویات اور بجلی۔
امریکی حمایت یافتہ شامی ڈیموکریٹک فورسز نے پانچ جون سے رقہ کا قبضہ واگزار کروانے کے لیے کوششیں شروع کی تھیں اور شہر کے 80 فیصد حصے کا کنٹرول حاصل کر لیا گیا ہے۔
دریائے فرات کے کنارے آباد اس شہر کو داعش نے اپنی نام نہاد خلافت کا دارالخلافہ قرار دے رکھا تھا۔
اتحادی فورسز کے عہدیداروں کو کہنا ہے کہ داعش کے عسکریت پسندوں نے اب بھی کچھ شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر اپنے قبضے میں لے رکھا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق جون میں شروع ہونے والی اس لڑائی میں اب تک ایک ہزار سے زائد شہری ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ دو لاکھ 70 ہزار یہاں سے نقل مکانی کرنے میں کامیاب رہے۔