بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں ہلدوانی کے بن بھولپورا علاقے میں ایک مدرسہ اور اس سے متصل مسجد کے انہدام کے بعد تشدد پھوٹ پڑا ہے جس کے نتیجے میں کم از کم پانچ افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ ریلوے کی زمین پر قائم مدرسہ غیر قانونی تھا۔ تشدد کے بعد انتظامیہ نے کرفیو نافذ کر دیا۔ پولیس کے مطابق مقامی باشندوں نے انہدام کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پولیس اسٹیشن اور ایک پولیس گاڑی نذر آتش کر دی ہے۔ اور انہوں نے پولیس میونسپل کارپوریشن کے دستے پر پتھراؤ بھی کیا۔
خبر رساں ادارے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ (پی ٹی آئی) کے مطابق حکام نے جمعہ کے روز کہا کہ یہ حملہ منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا تھا۔ زخمیوں میں زیادہ تر پولیس اہلکار اور باقی کارپوریشن کے عملے کے لوگ ہیں جنھیں اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔
تشدد کے بعد انٹرنیٹ خدمات معطل کر دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ انتظامیہ نے نینی تال میں تمام اسکول او رکالج بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ تشدد بھڑکنے کے بعد ہلدوانی میں تمام دکانیں بند ہو گئی ہیں۔
واقعہ کے بعد ریاست اترا کھنڈ اور متصل ریاست اترپردیش میں ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ گاڑیوں کی سختی سے جانچ کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا سرگرمیوں پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے۔
اترا کھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے اشتعال انگیزی کرنے والوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کی ہدایت بھی کردی ہے۔
نینی تال کی ضلع مجسٹریٹ وندنا سنگھ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ واقعہ کی ویڈیو سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس یا میونسپل عملہ نے کسی کو مشتعل نہیں کیا اور نہ ہی کسی کو نقصان پہنچایا۔
SEE ALSO: بھارت: کیا انتخابات کی وجہ سے مسلم مخالف جذباتی ایشوز میں اضافہ ہو رہا ہے؟ان کے مطابق قصورواروں کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے شناخت کی گئی ہے۔ ان کے مطابق تجاوزات کو ہائی کورٹ کے حکم پر ہٹایا گیا ہے۔
سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) پرہلاد مینا نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ مدرسہ اور مسجد کو سرکاری زمین پر ناجائز قبضہ کرکے بنایا گیا تھا اور ہائی کورٹ کے حکم پر بڑی تعداد میں سیکیورٹی جوانوں کی موجودگی میں تجاوزات ہٹائی گئیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جوں ہی انہدامی کارروائی شروع ہوئی تو خواتین سمیت ناراض مقامی باشندے بڑی تعداد میں احتجاج کرتے ہوئے باہر نکل آئے۔ انھوں نے ایک پولیس کار سمیت کئی گاڑیوں کو نذرِ آتش کر دیا۔ علاقے میں شام کے ڈھلے پولیس اسٹیشن کو بھی نذر آتش کر دیا گیا۔ جس کے بعد ’دیکھتے ہی گولی مارنے‘ کا آرڈر دیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے جمعرات کی دیر شام سینئر اہلکاروں کے ساتھ دہرہ دون میں ایک اعلیٰ سطح کے ایک اجلاس میں صورت حال کا جائزہ لیا۔ انھوں نے جمعے کو ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ انتظامیہ کو قصورواروں کا پتہ لگا کر ان کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
ڈائرکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) ابھینو کمار نے ہلدوانی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کی ترجیح 24 گھنٹے کے اندر صورت حال کو معمول پر لانا اور تمام قصورواروں کا پتہ لگانا ہے۔
نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ کی رپورٹ کے مطابق لوگ پولیس فائرنگ میں ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جمعرات کی سہ پہر ساڑھے تین بجے میونسپل کارپوریشن کا عملہ پولیس دستے اور بلڈوزر کے ساتھ ’مالک کے بغیچے کا مدرسہ‘ گرانے پہنچا۔
مقامی باشندوں نے ’دی وائر‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کارپوریشن کے عملہ نے نہ تو مدرسہ ومسجد کے انہدام سے متعلق کوئی کاغذ دکھایا اور نہ ہی وہ ان لوگوں کی باتیں سننے کے لیے تیار تھے۔
SEE ALSO: بھارت: گیان واپی مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت، مسلمانوں کا اعلٰی عدلیہ سے رجوع کا اعلانایک عینی شاہد نے دی وائر سے گفتگو میں کہا کہ پولیس اہلکاروں نے ہماری عورتوں کو لاٹھیوں سے پیٹا اور کم از کم چار خواتین گولی لگنے سے زخمی ہوئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق انہدام کرنے والے عملے نے صرف دوافراد کو مسجد و مدرسہ سے فوری طور پر قرآن مجید کے نسخے نکالنے کی اجازت دی۔ مقامی باشندوں کی درخواست کے باوجود عملے نے انہدام کے کاغذات دکھانے سے انکار کیا اور بزور طاقت اپنی کارروائی جاری رکھی جس کے وجہ سے کشیدگی بڑھ گئی۔
یاد رہے کہ انہدام شدہ مدرسہ ریلوے کالونی میں واقع تھا جہاں 4000 خاندان آباد ہیں۔ حکومت اس علاقے کو خالی کرانا چاہتی ہے تاکہ ریلوے کی تعمیرات کی توسیع کی جا سکے۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
واضح رہے کہ گزشہ سال جنوری میں حکومت نے یہ کہہ کر 29 ایکڑ اراضی پر آباد اس علاقے کو خالی کرانے کی کوشش کی تھی کہ یہ کالونی ریلوے کی زمین پر ناجائز قبضہ کرکے تعمیر کی گئی ہے۔ اس پر مقامی باشندوں کی جانب سے سخت احتجاج کیا گیا تھا۔
مقامی باشندو ں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس پر اس کے دو رکنی بینچ نے اس کارروائی پر حکم امتناع جاری کر دیا تھا۔ عدالت نے محکمۂ ریلوے سے کہا تھا کہ وہ کوئی عملی حل نکالے۔
وہاں کے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے زمین خرید کر اپنے مکان بنائے ہیں جس کے ان کے پاس کاغذات ہیں۔ گزشتہ سال جنوری میں پیدا ہونے والے اس تنازع نے اس وقت ملک و بیرون ملک کے میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کی تھی۔