اتوار کو بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلعے کلگام میں حفاظتی دستوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں پانچ مشتبہ عسکریت پسند ہلاک ہوگئے۔
عہدیداروں نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ اتوار کو علی الصبح ریاست کے گرمائی صدر مقام سرینگر سے ساٹھ کلو میٹر جنوب میں واقع کُلگام کے کیلم گاؤں کے ایک نجی گھر میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی مصدقہ اطلاع ملنے پر ایک آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ حفاظتی دستوں نے جونہی اس مکان کی طرف پیش قدمی کی ، وہاں چھپے عسکریت پسندوں نے ان پر گولی چلادی جس کے ساتھ ہی طرفین کے درمیان جھڑپ کا آغاز ہوا۔
سرینگر میں بھارتی فوج کے ترجمان کرنل راجیش کالیہ نے جھڑپ کے دوران پانچ عسکریت پسندوں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شناخت کرائی جارہی ہے اور یہ پتہ لگانے کی بھی کوشش کی جارہی ہے کہ ان کا تعلق کس عسکری تنظیم سے تھا۔ ترجمان نے انکاؤنٹر کی جگہ سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور اس کے بقول جنگی نوعیت کا سازو سامان برآمد کرنے کا دعویٰ کیا-
پولیس ذرائع کے مطابق مارے گئے عسکریت پسندوں کا تعلق حزب المجاہدین اور لشکرِ طیبہ تنظیموں سے تھا اور یہ سب کے سب مقامی کشمیری تھے۔ ان ذرائع نے ان کی شناخت وسیم احمد راتھر، عاقب نذیر میر، پرویز احمد بٹ، ادریس احمد بٹ اور زاہد احمد پرے کے طور پر کی۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ حفاظتی دستوں نے محصور عسکریت پسندوں کے خلاف بھاری اسلحہ، جس میں مارٹر بم بھی شامل تھے، استعمال کئے جس کے نتیجے میں ان کی کمین گاہ تباہ ہوگئی اور کئی ملحقہ رہائشی گھروں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
پولیس کے ایک ترجمان نے کہا کہ محصور عسکریت پسندوں کو ہتھیار ڈالکر خود کو حفاظتی دستوں کے حوالے کرنے کی پیشکش کی گئی تھی جسے انہوں نے ٹھکرایا اور لڑنے کو ترجیح دی۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جھڑپ کے دوران ہی علاقے میں عوامی مظاہرے پھوٹ پڑے۔ مظاہرین نے جو بھارت سے آزادی کے مطالبے کے حق میں نعرے لگارہے تھے انکاؤنٹر کی جگہ کے قریب جانے کی بار بار کوشش کی جسے حفاظتی دستوں نے طاقت کا استعمال کرکے ناکام بنادیا۔ اس واقعے میں ایک درجن سے زائد افراد زخمی ہوگئے جس میں سے دس کے چھرے لگے ہیں ۔
حفاظتی دستوں کے ساتھ جھڑپ میں پانچ عسکریت پسندوں کے مارے جانے کی خبر پھیلتے ہی کلگام کے چند دوسرے علاقوں میں بھی مظاہرین اور پولیس کے مابین تصادم کے واقعات ہوئے جن میں مزید کئی افراد کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔
علاقے کے ایک سابق ممبر اسمبلی اور بھارت کی مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے ریاستی جنرل سیکریٹری محمد یوسف تاریگامی نےاتوار کو پیش آئے واقعات کے پس منظر میں کہا کہ کشمیری عوام میں پائی جانے والی بد دلی اور مزاحمت کے رجحان کا توڑ بندوق اور طاقت کے استعمال سے نہیں بلکہ افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرکے کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا۔" ہمارے پاس کشمیر کے مسئلے کا کوئی ریڈی میڈ حل نہیں ہے لیکن ایک آزمودہ طریقہ ہے جسے اختیار کرکے اس دیرینہ مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے اور وہ ہے بات چیت کا راستہ"-
اس دوران بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ اور علاقائی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران کے ملک کے بلوکی فارسٹ ریزرو اور ننکانہ صاحب میں ایک نئی یونیورسٹی کو سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیو کے نام کرنے کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس فیصلے کو سراہا۔
محبوبہ مفتی نے اتوا ر کو ایک ٹویٹ میں کہا۔ "وقت کیسے بدلتا ہے۔ لگتا ہے کہ (بھارت کی) مرکزی حکومت کی سب سے بڑی ترجیح تاریخی شہروں کے نام بدلنا اور رام مندر تعمیر کرنا ہے۔ یہ دیکھکر خوشی ہوتی ہے کہ دوسری جانب پاکستان کے وزیرِ اعظم بلوکی فارسٹ ریزرو کو گورو نانک کے نام کرنے اور ان کے نام پر ایک یونیورسٹی بنانے کے لئے اقدامات اُٹھارہے ہیں"۔
ادھر اتوار کی شام کو سرینگر کے مرکزی چوراہے لال چوک پر مشتبہ عسکریت پسندوں کی طرف سے کئے گئے دستی بم کے ایک دھماکے میں مقامی پولیس کے چار اور بھارت کے وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف کے تین اہلکار اور چار شہری زخمی ہوگئے۔