"گھر والوں سے کافی عرصہ چھپائے رکھنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اب انھیں بتا دیا جائے کہ میں کیا شوق رکھتا ہوں اور کیا کر رہا ہوں۔ جیسے ہی میں نے انھیں بتایا تو میرے والد نے کہا کہ مطلب تم بھانڈ بننا چاہتے ہو؟ 'میں نے پہلی باریہ لفظ سنا تھا۔" یہ کہنا تھا محمد آصف کا جو کلاسیکل ڈانسر ہیں۔
آصف کے لیے ڈانس وہ تھا جو فلم میں نظر آتا تھا اور اسی شوق کو پورا کرنے کے لیے وہ دوست احباب، خاندان میں ہونے والی شادی کی تقریبات میں ڈانس کر کے داد وصول کرتے۔
ان کے بقول وہ ایک جگہ ڈانس پرفارمنس کے لیے گئے تو وہاں انھیں پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے ایک مینیجر نے علاقائی رقص کی پیشکش کی جسے انھوں نے قبول کر لیا۔
آصف کا کہنا ہے کہ یہ رقص ان کے لیے کچھ مختلف تھا لیکن شوق جاری رہا اسی دوران ان کی ملاقات کلاسیکل رقاصہ شیما کرمانی سے ہوئی۔ جنھوں نے آصف کو باقاعدہ رقص کی تربیت لینے کا مشورہ دیا۔ اور یوں آصف نے رقص کو باقاعدہ طور پر سیکھنے کا حتمی فیصلہ کیا اور شیما کرمانی کی شاگردی اختیار کر لی۔
ان کے بقول "جب باقاعدہ طور پر کلاسیکل رقص کی تربیت حاصل کرنا شروع کی تو اندازہ ہوا کہ یہ تو ایک الگ ہی دنیا ہے۔"
'صرف لڑکیوں کو ہی مزاحمت کا سامنا نہیں'
پاکستان میں کلاسیکل رقص میں یوں تو کئی نامور آرٹسٹ رہے ہیں لیکن شیما کرمانی کا شمار ان میں ہوتا ہے جنھوں نے سابق صدر ضیاء الحق کے سخت دور آمریت میں بھی رقص سے ناطہ جوڑے رکھا۔ اس دور میں رقص کو حرام قرار دیے جانے کے فتوے بھی جاری ہو چکے تھے لیکن شیما نے نہ تو ملک چھوڑا اور نہ ہی اپنا شوق۔
شیما کرمانی کہتی ہیں کہ ان کے شاگردوں کی تعداد بے حساب ہے، لڑکیاں بھی کلاسیکی رقص سیکھنے میں دلچسپی رکھتی ہیں لیکن کسی نہ کسی وقت میں اسے چھوڑ دیتی ہیں۔ لیکن لڑکوں کو بھی اپنا یہ شوق پورا کرنے کے لیے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
شیما کے بقول والدین کو یہ خدشات لاحق ہو جاتے ہیں کہ ہمارے بیٹے کا اس شعبے میں مستقبل کیا ہو گا؟ یہاں تک کہ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں جس میں والدین نے اپنے بیٹوں پر مار پیٹ بھی کی۔
شیما کہتی ہیں کہ "لفظ میراثی کا مطلب عام طور پر منفی لیا جاتا ہے حالانکہ اگر تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو بہت سی ایسی شخصیات نے انسانیت کی بھلائی کے لیے بھی کام کیا۔"
شاعر، موسیقار، صوفیانہ کلام پڑھنے والے مولانا روم سے لے کر امیر خسرو، بلھے شاہ، شاہ عبدالطیف بھٹائی یہ سب وہ لوگ تھے جنھوں نے معاشرے کی بہتری کے لیے کام کیا۔
آصف مسکراتے ہوئے اس وقت کو یاد کرتے ہیں جب انھیں ان کے والد نے گھر چھوڑ دینے کا فیصلہ سنایا تھا جسے آصف نے قبول بھی کرلیا تھا۔ کیوں کہ وہ گھر تو چھوڑ سکتے تھے لیکن کلاسیکل رقص نہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ رقص نے ان کی صحیح معنوں میں تربیت کی ان میں ادب اور شعور بیدار کیا اور اسی بات نے انھیں اپنے گھر والوں کو قائل کرنے میں مدد دی۔
اپنی استاد شیما کرمانی کے ساتھ صوفیانہ کلام پر رقص کرتے ہوئے آصف پر وجد طاری تھا وہ کسی اور ہی دنیا میں گم دکھائی دیے۔
آصف کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں رقص کو دل سے ابھی تک تسلیم نہیں کیا گیا۔ جبکہ مہندی مایوں، شادی کی تقریبات ڈھول اور ناچ گانے کے بغیر مکمل نہیں سمجھی جاتیں لیکن جب رقص کی بات آتی ہے تو معاشرے کا رویہ بدل جاتا ہے۔
آصف کے بقول جب ''میں جب نماز پڑھنے جاتا ہوں تو مسجد کے امام صاحب کو یہ نہیں بتا سکتا کہ میں کلاسیکل ڈانسر ہوں۔ کیوں کہ وہ مجھے اور میرے خاندان کو برسوں سے جانتے ہیں۔ انھیں صرف یہ ہی معلوم ہے کہ میں پی این سی اے میں مینیجر ہوں میں لوگوں کو اپنے بارےمیں وہ بتاتا ہوں جو انھیں قبول ہو۔''
کلاسیکل رقص سیکھنا کتنا مشکل ہے؟
آصف کہتے ہیں کہ لگ بھگ ایک سال انھیں یہ سیکھنے میں لگا کہ یہ رقص سیکھنے کے دوران اٹھنا بیٹھنا کیسے ہے۔ جس کے بعد کتھک ڈانس سیکھنا شروع کیا اس رقص کے مختلف انداز ہیں۔ "اس میں گھٹنوں کو نہیں موڑا جا سکتا اس میں آپ ہاتھ اور جسم کی حرکات و سکنات سے پوری کہانی بیان کرتے ہیں۔ ہاتھ اور پیروں کو کس انداز میں رکھنا ہے اس کی بھی سال بھر تربیت لینا پڑتی ہے۔"
آصف شیما کرمانی کی شاگردی میں 2005ء سے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ لاتعداد پرفارمنس دے چکے ہیں لیکن ان کے سیکھنے کا عمل اب بھی جاری ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
آصف نے بتایا کہ ان کے والد اور خاندان کے دیگر افراد شعبہ طب سے وابستہ ہیں لہذٰا والد کی یہی خواہش تھی کہ وہ بھی ڈاکٹر بنیں۔ لیکن وہ شروع سے ہی رقص میں دلچسپی رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آغاز میں وہ چھپ کر اپنے شوق کی تسکین کرتے رہے لیکن جب گھر والوں کو پتہ چلا تو ان پر سختی شروع ہو گئی۔
آصف کے بقول ''وہ سختی کرتے گئے اور میں خلاف ورزی کرتا گیا اسی دوران جب مجھے کہا گیا کہ میں یہ گھر چھوڑ دوں اور میں نے اس کا حتمی فیصلہ بھی کرلیا اس دوران انھیں چین میں پرفارم کرنے کی دعوت ملی۔ دورہ چین سے واپسی پر جب مجھے پرکشش معاوضہ ملا تو گھر والوں کو اندازہ ہوا کہ اس کام میں بھی میرا مستقبل بہتر ہو سکتا ہے۔"
آصف نے شکوہ کیا کہ ہمارے معاشرے میں ایک طرف جہاں رقص کو آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے وہی دوسری جانب یہ سوچ بھی ہے کہ رقص خواتین کا خاصہ ہے،اسے مرد نہیں کرسکتے۔ اگر مرد یہ سیکھنے لگیں تو ان کا یہ شوق اور عمل مشکوک قرار دیا جانے لگتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کی جنس سے متعلق بھی شک کا اظہار کیا جاتا ہے۔