درجہ حرارت میں اضافے سے نئے وبائی امراض کا خطرہ بڑھ رہا  ہے

آب و ہوا کی تبدیلی اور کرہ ارض کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت نئے وائرسوں کا سبب بن رہا ہے۔

آب و ہوا کی تبدیلی سے جہاں موسموں اور طوفانوں کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، وہاں ایک اور خدشہ بھی ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر رہا ہے جس کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ 2070 تک دنیا بھر میں ہزاروں نئے وائرس جانوروں کی مختلف نسلوں کو اپنا نشانہ بنائیں گے جن میں سے کئی ایک انسانوں میں منتقل ہو کر صحت کے مسائل میں اضافہ کر دیں گے۔

ایک نئی رپورٹ کے مطابق نئے وائرسوں کا ہدف خصوصی طور پر افریقہ اور ایشیا کے براعظم بنیں گے اور کثیر انسانی آبادی کے یہ دونوں خطے جانوروں سے انسانوں اور انسانوں سے جانوروں کو منتقل ہونے والے نئی وبائی امراض کے مراکز کی حیثیت اختیار کر لیں گے، جیسا کہ گزشتہ عشروں میں فلو، ایچ آئی وی اور کرونا وائرس جیسے مہلک وائرس پھیلتے اور منتقل ہوتے رہے ہیں۔

جمعرات کو سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ماہرین نے دودھ پلانے والے جانوروں کی تین ہزار سے زیادہ نسلوں کے ماڈل کی بنیاد پر نتائج مرتب کیے جس سے یہ ظاہر ہوا کہ اگر دنیا کے درجہ حرارت میں دو ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو جاتا ہے تو اگلے 50 برسوں کے دوران نئے وائرسوں کے پیدا ہونے، پھیلنے اور جانوروں سے انسانوں کو منتقل ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف دودھ پلانے والے جانوروں میں وائرسوں کے ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقلی چار ہزار بار سے زیادہ ہو گی۔ اس مطالعے میں پرندوں اور آبی حیات کو شامل نہیں کیا تھا۔

SEE ALSO: پاکستان میں گرمی کی لہروں میں اضافے کے امکانات 

محققین کا کہنا ہے کہ تمام نئے وائرس کرونا وائرس کی سطح کے ہلاکت خیز اور انتہائی سرعت سے پھیلنے کی صلاحیت رکھنے والے نہیں ہوں گے، لیکن ان کی تعداد اور جانوروں سے انسانوں اور انسانوں سے جانوروں میں منتقلی کی ان کی صلاحیت انسانی آبادیوں کے لیے خطرات میں نمایاں طور پر اضافہ کر دے گی۔

یہ مطالعاتی جائزہ دو عالمی بحرانوں کے خطرات کو اجاگر کرتا ہے جن میں سے ایک کرہ ارض کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور دوسرا نئے وائرسوں کا ظہور، پھیلاؤ اور ان کی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقلی ہے۔ انسان کو ان دونوں بحرانوں سے ایک ساتھ ہی نمٹنا ہو گا۔

محققین نے میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ اس سے قبل کی جانے والی سائنسی مطالعے میں اس پہلو پر غور کیا گیا تھا کہ جنگلات کی بڑے پیمانے پر کٹائی اور خاتمے اور جانوروں کی تجارت جانوروں سے انسانوں کی جانب وائرسوں کی منتقلی کا سبب بن رہی ہے جب کہ اس بارے میں کم ہی سوچا گیا تھا کہ آب و ہوا کی تبدیلی وباؤں کے پھیلاؤ میں کیا کردار ادا کرتی ہے۔

مطالعے کے شریک مصنف اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے بائیولوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر کولن کارلسن نے بتایا کہ ہم نے آب و ہوا کی تبدیلی کے حوالے سے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی بیماریوں پر زیادہ بات نہیں کی۔ ہماری تحقیق ان دو عالمی بحرانوں کو یک جا کرتی ہے جن کا ہمیں سامنا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان گلوبل وارمنگ کے نشانے پر، حل کیا ہے؟

آب و ہوا کی تبدیلی اور وبائی امراض کے ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے سے نئے وائرسوں کے جنم لینے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

یونیورسٹی آف نبراسکا سٹیٹ میوزیم کے ماہر حیاتیات ڈینیئل بروکس کہتے ہیں کہ یہ سائنسی مطالعہ آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث وبائی امراض کے بڑھنے کے خطرے کو اجاگر کرتا ہے۔

ہاورڈ ینورسٹی کے ٹی ایچ چن سکول آف پبلک ہیلتھ کے وبائی امراض کے ایک ماہر آرون برنسٹین کہتے ہیں کہ یہ تحقیق کرہ ارض کے گرم ہونے سے نئے وبائی امراض کے ظہور میں آنے سے متعلق خدشات کی تصدیق کرتی ہے۔ اور خاص طور پر اس جانب بھی اشارہ کرتی ہے کہ ممکن ہے کہ یہ عمل زیادہ تواتر سے ان مقامات پر شروع ہو چکا ہو جو انسانی آبادیوں کے قریب ہیں۔

اس تحقیق کے شریک مصنف کارلسٹن جو آب و ہوا کی بین الالحکومتی پینل کی تازہ رپورٹ کے بھی مصنف ہیں، کہتے ہیں کہ ہمیں وبائی امراض کے بڑھتے ہوئے خطرے پر قابو پانے کے لیے لازمی طور پر گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ختم کرنا ہو گا۔