پاکستان کے صوبہ پنجاب کے بیشتر علاقوں میں ان دنوں گرمی کا راج ہے، سورج شدید دھوپ برسا رہا ہے، اور سب لوگوں کی زبان پر درجہ حرارت بڑھ جانے کی کہانی ہے۔
حالانکہ ماحول دوست لاہوریوں کی جانب سے گرمی کا قہر ٹوٹنے سے چند دن پہلے تک خوب درخت بھی لگائے گئے، موسم بہار میں ہر کسی نے شجرکاری مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا۔ درختوں کی اہمیت پر آگاہی تقریبات بھی سجائی گئیں لیکن ظالم گرمی کے آگے سب تدبیریں بے سود ثابت ہورہی ہیں۔
ظاہر ہے آج کی جانے والی کوششوں کا پھل آنے والے سالوں میں ہی کھانے کو ملے گا۔ اسی لیے ماہرین کہتے ہیں کہ کوششیں رکنی نہیں چاہئیں بلکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث موسم کی سختیوں سے بچنے کے لئے سارا سال ہی کام جاری رکھنا چاہئیے۔
انسانی فطرت ہے کہ وہ مشکل وقت سے نکل کر اسے بھول جاتا ہے اور اپنے حال میں جینے لگتا ہے، جو کہ اچھا بھی ہے۔ لیکن ماضی میں آئی مصیبت کے اگر مستقبل میں پھر آنے کا خطرہ ہو تو اس کا کوئی مستقل حل تو سوچنا ہی پڑتا ہے۔
حالیہ موسم کی سختی جھیلنے والے اگر یاداشت پر تھوڑا زور ڈالیں تو سردیوں کے آغاز میں ماحولیاتی تبدیلی کی ایسی ہی شکایات وہ اسموگ سیزن میں بھی کر چکے ہیں۔
حالانکہ اسموگ سیزن آنے سے پہلے دھواں پھیلانے والی فیکٹریوں کی بندش، زگ زیگ ٹیکنالوجی نہ اپنانے والے اینٹوں کے بھٹوں پر پابندی اور کھیتوں میں فصلوں کی باقیات جلانے پر دفعہ ایک سو چوالیس کے نفاذ جیسے اقدامات بھی کیے جاتے ہیں۔
اس کے باوجود اسموگ گزشتہ کچھ سالوں سے بن بلائے مہمان کی طرح لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں پر وارد ہو جاتی ہے اور پھر ناک منہ چڑاتے ہوئے شہریوں کو اس کی میزبانی کرنی پڑتی ہے۔
اس قدر ناگوار احساس کے باوجود فضا میں اس سفید زہریلے دھوئیں کے آثار ختم ہوتے ہی اس کے تدارک کے لیے اٹھنے والی آوازیں بھی آئندہ برس اسموگ کی دوبارہ آمد تک دم توڑ دیتی ہیں۔
'کاشت کاروں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے'
کاشت کار اور فارمر ایسوسی ایٹ کی صدر رابعہ سلطان کہتی ہیں کہ جب اسموگ کو موسم سرما کا وقتی مسلئہ سمجھا جائے گا اور اس مسئلے کے حل کے ساتھ رات گئی بات گئی کے محاورے سا سلوک برتا جائے گا، تب تک اسموگ ہر سال لوٹ کر آئے گی بلکہ شدت اختیار کرتی جائے گی۔
حکومت کی جانب سے کاشت کار سے صرف اسموگ کے دنوں میں رابطہ کیا جاتا ہے، انھیں فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے سے روکا جاتا ہے لیکن کاشت کار اس باقیات کا کیا کرے اور اگلی فصل لگانے کے لئے کھیتوں کو صاف کیسے کرے، یہ نہیں بتایا جاتا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے رابعہ سلطان نے بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ چاول کی مڈھی کو کاٹ کر زمین میں ملا دیں تو اس سے زمین کی ذرخیزی میں اضافہ ہوتا ہے، زمین میں معدنیات کو جذب کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ لیکن ایسا کرنے کے لئے کسان کو جدید مشینری کی ضرورت ہے۔ جو وہ حکومتی سبسڈی کے بغیر نہیں خرید سکتا۔
فصلوں کی باقیات کو آگ لگانا کھیتوں کی صفائی کا نیا طریقہ کار نہیں بلکہ صدیوں سے رائج ہے۔ اسموگ کا مسئلہ پہلے اس لیے نہیں تھا کہ چاول ہاتھ سے کاٹا جاتا تھا،جو بالکل قریب سے کٹ جاتا تھا، اب کاشت کار آٹھ سے دس انچ چاول کی مڈھی کھیت میں چھوڑ دیتا ہے، اس کو زیادہ جلایا جاتا ہے۔ جس سے اسموگ کا مسئلہ سر اٹھاتا ہے۔
کھیت کو آگ لگانا اس لئے ضروری ہے کہ کاشت کار کو چاول کے فوری بعد گندم کاشت کرنی ہوتی ہے، جس کے لیے کھیت کو خالی کرنے کے لئے برسوں سے آگ لگانے کا طریقہ کار رائج ہے۔
رابعہ سلطان کہتی ہیں کہ اگر حکومت واقعی اسموگ کا مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے تو اسے آف سیزن میں بھی سرکاری اہل کاروں کو متحرک کر کے کسانوں کو متبادل انتظامات سے متعلق آگاہی دینا ہو گی۔
فصلوں کی باقیات کا بطور ایندھن استعمال
عالمی ماحولیاتی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہر سال 19 ملین ٹن فصلوں کی باقیات کو جلایا جاتا ہے۔
اس کے حل کے لیے ڈبلیو ڈبلیو ایف نے سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز کے اشتراک سے پنجاب کے مختلف دیہی علاقوں کے 526 گھروں میں سولر شیٹس اور گیسی فائبر چولہے تقسیم کیے ہیں۔ اس چولہے کی خاص بات یہ ہے کہ فصلوں کی باقیات اس میں بطور ایندھن استعمال ہو سکتی ہیں۔ تاکہ کاشت کار فصلوں کے فضلہ جات چلانے کی بجائے بطور ایندھن استعمال کر لیں۔
عالمی ماحولیاتی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے ان دنوں اسموگ کے دوبارہ لوٹ آنے سے پہلے اس کے تدارک اور حل کی جانب قدم اٹھایا جا رہا ہے۔ متعلقہ اداروں سے ماہرین کو مشاورت کے لیے اکٹھا کیا جا رہا ہے۔
ماحولیاتی قانون دان رافع عالم کا کہنا ہے کہ اسموگ کی وجہ بننے والے دوسرے عوامل کی جانب بھی دیکھنا ہو گا۔ ٹریفک کا دھواں پہلے ہی ماحول کے لیے خطرناک ہے، ایسے میں حکومت پیسے بچانے کے لئے سستا فیول درآمد کرنے پر غور کر رہی ہے جو مزید بگاڑ پیدا کرسکتا ہے۔
انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہم اپنی آب و ہوا کے ساتھ کیا کر رہے ہیں، دن بدن آلودگی کا نیا بوجھ ڈال رہے ہیں اور پھر امید کرتے ہیں کہ سب خود بخود ٹھیک ہو جائے حالانکہ اب ہمیں اس جانب اپنے رویے میں سنجیدگی لانی ہو گی۔