چند ترقی یافتہ ممالک نے، جِن میں امریکہ شامل ہے، کیوٹو سمجھوتے کی توثیق نہیں کی۔ دوسرے ممالک جنھوں نے سمجھوتے کے دوسرے مرحلے سے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھا ہے اُن میں کینیڈا، جاپان، نیو زیلینڈ اور روس شامل ہیں
واشنگٹن —
اقوام متحدہ کے توسط سےموسمیات کے موضوع پر دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں، جن میں تقریباً 200ممالک نے شرکت کی، کیوٹو معاہدے کی 2020ء تک توسیع کی منظوری دے دی ہے۔
سنہ 1997میں کیے گئے اِس سمجھوتے کے تحت ترقی یافتہ صنعتی ممالک پر لازم ہے کہ وہ گرین ہاؤس گیس کے اخراج کو کم کرنے کے اقدامات کریں، جس کی میعاد 31دسمبرکو ختم ہورہی ہے۔
یہ 12 روزہ کانفرنس جمعے کو مکمل ہونے والی تھی، جسےہفتے کے روز تک بڑھایا گیا، کیونکہ وفود کے درمیان اِس بات پر اختلاف تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کو کس طرح روکا جائے اور اَس کے لیے رقوم کس طریقے سے فراہم ہوں۔
ترقی پذیر ممالک کیوٹو پروٹوکول میں توسیع کے لیے زور دیتےچلے آہے ہیں۔ اُنھوں نے سال 2020ء تک ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے 100 ارب ڈالر تک دینے کے پختہ عزم کے اظہار کا مطالبہ کیا ہے، جس کے بارے میں ایک عام سا وعدہ تین سال قبل کیا گیا تھا۔ امیر ملکوں نے کہا ہے کہ وہ کسی خاص اہداف کے حصول کےکسی وعدے کی خواہاں نہیں، اور اس سلسلے میں وہ عالمی مالیاتی خلفشار اور اُن کی بجٹوں پر پڑنے والے بوجھ کی نشاندہی کرتے رہے ہیں۔
چند ترقی یافتہ ممالک نے، جِن میں امریکہ شامل ہے، کیوٹو سمجھوتے کی توثیق نہیں کی۔ دوسرے ممالک جنھوں نے سمجھوتے کے دوسرے مرحلے سے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھا ہے اُن میں کینیڈا، جاپان، نیو زیلینڈ اور روس شامل ہیں۔
رائے دہی سے اجتناب کا مقصد یہ ہے کہ معاہدے میں وسعت کی صورت میں اِس میں صرف وہی ترقی یافتہ ممالک شامل ہوں گے جو عالمی کاربن گیس کے 15فی صد یا اِس سے کم کاربن گیس کےاخراج کے ذمہ دار ہیں۔
دو ہفتے تک جاری رہنے والی اِس کانفرنس کے دوران کثیر تعداد میں سائنسی رپورٹیں
جاری کی گئیں جِن سے اِس بات کا بخوبی پتا چلتا ہے کہ کرہٴ زمین کا درجہٴ حرارت بڑھ رہا ہے۔ اِن رپورٹوں میں یہ پیش گوئی بھی کی گئی ہے کہ اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیس کے اخراج کے معاملے کو کم نہیں کیا جاتا، جو کہ درجہٴ حرارت میں اضافے کا باعث ہے، تو اِس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے، جن میں سمندر کی سطح میں اضافے سے لے کر سنگین خشک سالی رونما ہونا، سیلاب اور طوفان آنا شامل ہوں گے۔
توقع کی جاتی ہے کہ 2015ء میں ایک وسیع تر معاہدہ طےہوجائے گا، جِس میں تمام تر ممالک شامل ہوں گے۔ ایسے سمجھوتے پر 2020ء تک عمل درآمد ہوگا اور یوں یہ کیوٹو پروٹوکول کی جگہ لے گا۔
سنہ 1997میں کیے گئے اِس سمجھوتے کے تحت ترقی یافتہ صنعتی ممالک پر لازم ہے کہ وہ گرین ہاؤس گیس کے اخراج کو کم کرنے کے اقدامات کریں، جس کی میعاد 31دسمبرکو ختم ہورہی ہے۔
یہ 12 روزہ کانفرنس جمعے کو مکمل ہونے والی تھی، جسےہفتے کے روز تک بڑھایا گیا، کیونکہ وفود کے درمیان اِس بات پر اختلاف تھا کہ موسمیاتی تبدیلی کو کس طرح روکا جائے اور اَس کے لیے رقوم کس طریقے سے فراہم ہوں۔
ترقی پذیر ممالک کیوٹو پروٹوکول میں توسیع کے لیے زور دیتےچلے آہے ہیں۔ اُنھوں نے سال 2020ء تک ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے 100 ارب ڈالر تک دینے کے پختہ عزم کے اظہار کا مطالبہ کیا ہے، جس کے بارے میں ایک عام سا وعدہ تین سال قبل کیا گیا تھا۔ امیر ملکوں نے کہا ہے کہ وہ کسی خاص اہداف کے حصول کےکسی وعدے کی خواہاں نہیں، اور اس سلسلے میں وہ عالمی مالیاتی خلفشار اور اُن کی بجٹوں پر پڑنے والے بوجھ کی نشاندہی کرتے رہے ہیں۔
چند ترقی یافتہ ممالک نے، جِن میں امریکہ شامل ہے، کیوٹو سمجھوتے کی توثیق نہیں کی۔ دوسرے ممالک جنھوں نے سمجھوتے کے دوسرے مرحلے سے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھا ہے اُن میں کینیڈا، جاپان، نیو زیلینڈ اور روس شامل ہیں۔
رائے دہی سے اجتناب کا مقصد یہ ہے کہ معاہدے میں وسعت کی صورت میں اِس میں صرف وہی ترقی یافتہ ممالک شامل ہوں گے جو عالمی کاربن گیس کے 15فی صد یا اِس سے کم کاربن گیس کےاخراج کے ذمہ دار ہیں۔
دو ہفتے تک جاری رہنے والی اِس کانفرنس کے دوران کثیر تعداد میں سائنسی رپورٹیں
جاری کی گئیں جِن سے اِس بات کا بخوبی پتا چلتا ہے کہ کرہٴ زمین کا درجہٴ حرارت بڑھ رہا ہے۔ اِن رپورٹوں میں یہ پیش گوئی بھی کی گئی ہے کہ اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیس کے اخراج کے معاملے کو کم نہیں کیا جاتا، جو کہ درجہٴ حرارت میں اضافے کا باعث ہے، تو اِس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے، جن میں سمندر کی سطح میں اضافے سے لے کر سنگین خشک سالی رونما ہونا، سیلاب اور طوفان آنا شامل ہوں گے۔
توقع کی جاتی ہے کہ 2015ء میں ایک وسیع تر معاہدہ طےہوجائے گا، جِس میں تمام تر ممالک شامل ہوں گے۔ ایسے سمجھوتے پر 2020ء تک عمل درآمد ہوگا اور یوں یہ کیوٹو پروٹوکول کی جگہ لے گا۔