نیوزی لینڈ سے تعلق رکھے والے مارٹن اور ڈینالی شمڈ کا K-2 ’’بیس کیمپ‘‘ گروپ لیڈر سے 26 جولائی کی سہ پہر کے بعد کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
اسلام آباد —
پاکستان کی حدود میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے پر پیش آنے والے تازہ ترین حادثے میں نیوزی لینڈ کے دو کوہ پیما لاپتہ ہو گئے ہیں۔
کوہ پیمائی کی مقامی نمائندہ تنظیم ’’الپائین کلب آف پاکستان‘‘ کے مطابق 53 سالہ مارٹن والٹر شمڈ اور اُن کے 25 سالہ بیٹے ڈینالی دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی K-2(قراقرم ٹو) سر کرنے کی کوشش کے دوران لاپتہ ہوئے۔
تنظیم کے عہدیدار قرار حیدری نے وائس آف امریکہ کو بتایا گیا ہے کہ دونوں کوہ پیما 25 جولائی کو 7,400 میٹر کی بلندی پر واقع K-2 کے ‘‘کیمپ تھری‘‘ پہنچے تھے۔
اُنھوں نے بتایا کہ K-2 کا 8,000 میٹر کی بلندی پر قائم ’’کیمپ فور‘‘ حالیہ دونوں میں بڑے برفانی تودوں کی زد میں آتا رہا ہے، جس کی وجہ سے اس چوٹی پر موجود تمام کوہ پیماؤں نے ’’بیس کیمپ‘‘ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
قرار حیدری کا کہنا تھا کہ مارٹن اور ڈینالی شمڈ کا ’’بیس کیمپ‘‘ گروپ لیڈر آسٹریلیا کے کرسٹفر وارنر سے 26 جولائی کی سہ پہر کے بعد کوئی رابطہ نہیں ہوا، جس کے بعد ایک نیپالی معاون کو ’’کیمپ تھری‘‘ بھیجا گیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اطلاعات کے مطابق دونوں کوہ پیما برفانی تودے کی لپیٹ میں آ گئے ہیں اور ان کی تلاش کا کام جاری ہے۔‘‘
یہ امر قابل ذکر ہے کہ مارٹن اور ڈینالی شمڈ نے رواں ماہ کے وسط میں 8,047 میٹر بلند ’’براڈ پیک‘‘ سر کی تھی۔
مارٹن دنیا کی بلند ترین چوٹی ’’ماؤنٹ ایورسٹ‘‘ سمیٹ کئی چوٹیاں سر کر چکے ہیں، اور اُن کا کوہ پیمائی سے لگاؤ کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اُنھوں نے اپنے بیٹے کا نام شمالی امریکہ کی بلند ترین چوٹی ’’ڈینالی‘‘ کے نام پر رکھا۔
قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں موسم گرما میں مختلف ممالک کے کوہ پیما یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے کوہ قراقرم میں ایک چوٹی کو سر کرتے ہوئے تین ہسپانوی کوہ پیماؤں لاپتہ ہو گئے تھے، جب کہ اس سے چند روز قبل ایران کے تین کوہ پیما بھی اسی پہاڑی سلسلے میں میں ایک چوٹی کو سر کرنے کے بعد سے لاپتہ ہو گئے تھے۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع بلند بالا چوٹیوں کو سر کرنے دنیا کے مختلف ممالک سے کوہ پیما یہاں آتے ہیں لیکن جون کے اواخر میں یہاں نانگا پربت چوٹی کے بیس کیمپ پر ایک دہشت گردانہ واقعے میں دس غیر ملکی سیاحوں کی ہلاکت کے بعد سے ان کی آمد میں کسی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔
گزشتہ ماہ شمالی علاقے گلگت بلتستان میں شدت پسندوں کی جانب سے غیر ملکی سیاہوں پر کیے گئے مہلک حملے کے بعد بیرون ملک سے کوہ پیماؤں کی آمد بند ہونے اور سیاحت کی صنعت کو بڑا نقصان پہنچنے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
کوہ پیمائی کی مقامی نمائندہ تنظیم ’’الپائین کلب آف پاکستان‘‘ کے مطابق 53 سالہ مارٹن والٹر شمڈ اور اُن کے 25 سالہ بیٹے ڈینالی دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی K-2(قراقرم ٹو) سر کرنے کی کوشش کے دوران لاپتہ ہوئے۔
تنظیم کے عہدیدار قرار حیدری نے وائس آف امریکہ کو بتایا گیا ہے کہ دونوں کوہ پیما 25 جولائی کو 7,400 میٹر کی بلندی پر واقع K-2 کے ‘‘کیمپ تھری‘‘ پہنچے تھے۔
اُنھوں نے بتایا کہ K-2 کا 8,000 میٹر کی بلندی پر قائم ’’کیمپ فور‘‘ حالیہ دونوں میں بڑے برفانی تودوں کی زد میں آتا رہا ہے، جس کی وجہ سے اس چوٹی پر موجود تمام کوہ پیماؤں نے ’’بیس کیمپ‘‘ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
قرار حیدری کا کہنا تھا کہ مارٹن اور ڈینالی شمڈ کا ’’بیس کیمپ‘‘ گروپ لیڈر آسٹریلیا کے کرسٹفر وارنر سے 26 جولائی کی سہ پہر کے بعد کوئی رابطہ نہیں ہوا، جس کے بعد ایک نیپالی معاون کو ’’کیمپ تھری‘‘ بھیجا گیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اطلاعات کے مطابق دونوں کوہ پیما برفانی تودے کی لپیٹ میں آ گئے ہیں اور ان کی تلاش کا کام جاری ہے۔‘‘
یہ امر قابل ذکر ہے کہ مارٹن اور ڈینالی شمڈ نے رواں ماہ کے وسط میں 8,047 میٹر بلند ’’براڈ پیک‘‘ سر کی تھی۔
مارٹن دنیا کی بلند ترین چوٹی ’’ماؤنٹ ایورسٹ‘‘ سمیٹ کئی چوٹیاں سر کر چکے ہیں، اور اُن کا کوہ پیمائی سے لگاؤ کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اُنھوں نے اپنے بیٹے کا نام شمالی امریکہ کی بلند ترین چوٹی ’’ڈینالی‘‘ کے نام پر رکھا۔
قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں موسم گرما میں مختلف ممالک کے کوہ پیما یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے کوہ قراقرم میں ایک چوٹی کو سر کرتے ہوئے تین ہسپانوی کوہ پیماؤں لاپتہ ہو گئے تھے، جب کہ اس سے چند روز قبل ایران کے تین کوہ پیما بھی اسی پہاڑی سلسلے میں میں ایک چوٹی کو سر کرنے کے بعد سے لاپتہ ہو گئے تھے۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع بلند بالا چوٹیوں کو سر کرنے دنیا کے مختلف ممالک سے کوہ پیما یہاں آتے ہیں لیکن جون کے اواخر میں یہاں نانگا پربت چوٹی کے بیس کیمپ پر ایک دہشت گردانہ واقعے میں دس غیر ملکی سیاحوں کی ہلاکت کے بعد سے ان کی آمد میں کسی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔
گزشتہ ماہ شمالی علاقے گلگت بلتستان میں شدت پسندوں کی جانب سے غیر ملکی سیاہوں پر کیے گئے مہلک حملے کے بعد بیرون ملک سے کوہ پیماؤں کی آمد بند ہونے اور سیاحت کی صنعت کو بڑا نقصان پہنچنے کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔