امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے ترکی پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے بڑھتے ہوئے سفارتی تنازع کو دورکرنے کی کوشش کرے۔
ایسے میں جب عالمی راہنما اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کےلیے اِکٹھے ہو رہے ہیں، پیر کے روز نیویارک میں ہلری کلنٹن نےترک وزیرخارجہ احمد داؤداوگلوسے ملاقات کی۔ اُنھوں نے ترکی سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے’دروازے کھلے رکھے‘۔ ایک طویل عرصے سےامریکہ دونوں ملکوں کا اتحادی ہے۔
ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں اُس وقت بگاڑ آیا جب مئی 2010ء میں اسرائیلی کمانڈوز نےبحری جہازوں کے اُس قافلے پر چھاپہ مارا ، جو ترکی کی قیادت میں غزہ کے ناکہ بندی کیے ہوئے بندر گاہ کی طرف جانے کی کوشش کر رہا تھا، جس میں نو سرگرم کارکن ہلاک ہوگئے تھے۔
ترکی نے اُس مہلک چھاپے پر معذرت اور معاوضے کا مطالبہ کر رکھا ہے جب کہ اسرائیل اِن میں سے کسی بات کو ماننے سے انکاری ہے۔
اِس سے قبل ستمبر ہی میں، ترکی نے اسرائیل کے سفیر کو ملک سے نکال دیا، سارے فوجی تعلقات ختم کردیے اور دھمکی دی ہے کہ آئندہ ناکہ بندی شدہ فلسطینی بندرگاہ جانے والے ترکی کے سمندری جہازوں کی نگرانی ترک بحریہ کیا کرے گی۔
پیر کو اسرائیل نے کہا کہ وہ ترک پولیس کے ساتھ تعاون کو ختم کر رہا ہے۔
امریکی صدر براک اوباما منگل کو ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردغان سے ملاقات کرنے والے ہیں۔
ری پبلیکن اور ڈیموکریٹ پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے سینیٹروں کے ایک گروپ نے مسٹر اوباما کوایک دستخط شدہ مراصلہ بھیجا ہے جس میں دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کو ختم کرنے کے لیے سفارتی کوششیں تیز کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ سینیٹروں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ترکی اسرائیل کے ساتھ محاذ آرائی کی پالیسی اپنانا چاہتا ہے، اور وہ ایسے فیصلے کررہا ہے جن سے علاقائی استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔