امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے حکومتِ پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ محصولات کے اپنے نظام کو وسعت دینے کے لیے ناگزیراورمؤثر اقتصادی اصلاحات فوری طور پر نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں معاشی طور پر خوشحال اور امیر طبقے کوسیلاب زدگان کی مدد کرنے کا پابند کرے۔
جمعرات کو برسلز میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن یہ امر ہرگز قابل قبول نہیں ہو گا کہ امریکہ ، یورپ اور مالی امداد دینے والے دوسرے ممالک کے ٹیکس دہندگان کے پیسے تو پاکستانی سیلاب زدگان کو ملیں اورمالی وسائل اکٹھے کرنے میں ملک کے اندر امیر طبقہ خود اپنی ہی حکومت اور لوگوں کی مد د کے لیے مناسب کردار ادا نہ کرے۔
انھوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کررہی ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اندرون ملک بھی اسی جذبے کا مظاہرہ کیا جائے۔
ہلری کلنٹن نے ان خیالات کا اظہار یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین ایشٹن کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا۔
امریکی وزیر خارجہ نے یہ بیان ایک ایسے وقت دیا ہے جب جمعہ کو برسلز میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کے ساتھ ”فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان“ گروپ کے اجلاس کی مشترکہ میزبانی کریں گے۔
یہ تنظیم امریکہ سمیت 26 ممالک اور اداروں پر مشتمل ہے جو پاکستان کی اقتصادی ترقی میں اُس کی مدد کے لیے قائم کی گئی ہے۔
اجلاس میں گذشتہ سال نیویارک میں صدر براک اوباما کی شریک میزبانی میں ہونے والے افتتاحی اجلاس میں طے پانے والے امور پر پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔
ہلری کلنٹن نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کے لیے پاکستان کو بین الاقوامی برادری کی امداد کی ضرورت ہوگی۔
انھوں نے بتایا کہ امریکہ نے اب تک پاکستان کو 30 کروڑ88لاکھ ڈالر مالی امداد دی ہے جبکہ ساڑھے سات کروڑ کی اضافی لاجسٹکل اور دیگر امداد کے علاوہ امدادی کارروائیوں میں 30 ہیلی کاپٹروں نے حصہ لیا ہے۔ جن کی مدد سے 23 ہزار سے زائد سیلاب زدگان کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ اس کے علاوہ ایک کروڑ 60 لاکھ پاؤنڈ امدادی سامان بھی متاثرین میں تقسیم کیا گیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں کی کامیابی کے لیے ایک مستحکم پاکستان ناگزیر ہے اور امریکہ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنا کردار ادا کرر ہا ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 20 لاکھ افراد باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ان میں اکثریت سرکاری ملازمین اور نجی شعبے کے ملازمت پیشہ افراد کی ہے، جنہیں تنخواہوں کی ادائیگی ٹیکس کی کٹوتی کے بعد کی جاتی ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ امیر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد مالیاتی دستاویزات میں ردوبدل اور خود ٹیکس کے نظام میں پائی جانے والی بدعنوانی کے ذریعے ٹیکس ادا کرنے سے بچ جاتے ہیں ۔