امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں بدھ کے روز کانگریس کی عمارت کے سامنے گوانتامو بے ، کیوبا کے حراستی مرکز میں بند قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک مظاہرہ کیا گیا ۔مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ گوانتانامو قید خانہ بند کیا جائے اورقیدیوں کو رہا کیا جائے ۔
منتظمین کے مطابق اسی طرح کے مظاہرے عالمی سطح پر ایک ساتھ ایک ہی وقت میں لندن ،واشنگٹن ڈی سی ، نیویارک اور میکسیکو سٹی میں بھی کیے جارہے ہیں ۔
Witness Against Torture اور’’ کلوز گوانتانامو‘‘ادارے کی نمائندگی کرنے والے سٹیفن لین امریکی ریاست میری لینڈ سے اس مظاہرے میں شرکت کے لئے آئے تھے ۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سٹیفن لین کا کہنا تھا کہ میں اس ناانصافی کو درست کرنے کے لیے جو کچھ کر سکتا ہوں وہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، جو ہم گوانتانامو میں قید افراد کے ساتھ کر رہے ہیں ۔ ان میں سے کچھ بغیر کوئی جرم عائد کیےکئی دہائیوں سے قید ہیں جو کہ غیر قانونی ہےاور آئین کے مطابق نہیں ہے، یہ غیر اخلاقی بھی ہے۔
گوانتانامو بے قید خانے میں اس وقت صرف 32 قیدی ہیں، ان میں 18 کو رہائی کے لیے کلیئر کر دیا گیا ہے ۔ ان میں سے کسی پر کبھی کسی جرم کا الزام بھی نہیں لگایا گیا ہے۔ امریکی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ان 18 افراد کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے سخت محنت کر رہی ہے ۔
واشنگٹن ڈی سی کی رہائشی ہیلن شیٹنگر بھی مظاہرین میں شامل تھیں ۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گونتانامو قید خانے کو تشکیل دینا امریکی اور بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے ۔
’’میں یہاں نہ صرف گوانتاناموبے کی بندش کا مطالبہ کرنے آئی ہوں، بلکہ میں یہ بھی چاہتی ہوں کہ قیدیوں کے ساتھ کیے گئے سلوک کی تلافی کی جائے‘‘۔
جب سے گوانتامو بے ، کیوبا میں یہ قید خانہ قائم ہوا ہے ، انسانی حقوق کے کارکن اس کے خلاف ، قیدیوں کےساتھ بدسلوکی اور ان پر کوئی مقدمہ چلائے بغیر وہا ں قید رکھنے پر اواز اٹھاتے آئے ہیں ۔
واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والے اس مظاہرے میں شریک ڈیوڈ بیروز کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ گوانتانامو کے باقی قیدی جلد رہا کیے جائیں تاکہ وہ اپنی زندگی آرام سے گذاریں ۔
’’ ہم گوانتاناموبے میں کم از کم ان بےقصور لوگوں کو بے گناہ قرار دینا چاہتے ہیں جن کاکبھی دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ان کی نگرانی کی جائے لیکن انہیں کسی طرح آرام سے رہنا دیا جائے ‘‘۔
میشل پرادیس ، امریکی محکمہ دفاع کے لیے سینئیر کونسل کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ وائس آف امریکہ اردو سے بذریعہ سکائپ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گوانتانامو میں تقریباً 20 قیدی ایسے ہیں ، جن پرنہ تو مقدمہ چلایا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان پر کوئی فرد جرم عائد کی جا سکتی ہے۔
’’ان میں سے اکثر کو پہلے ہی رہائی کے لیے کلیئر کر دیا گیا ہے۔ان میں سے سب سے بڑی تعداد یمن سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ یمن کی خانہ جنگی اور کشیدہ صورت حال کی وجہ سےانہیں وہاں بھیجا نہیں جا سکتا ۔ انہیں بھیجنے کے لیے بنیادی طور پر ایک محفوظ جگہ کی ضرورت ہوگی‘‘ ۔
مشیل پیرادیس کہتے ہیں کہ ان قیدیوں کے آبائی ملکوں یا کسی تیسرے ملک کی حکومت کےساتھ ان کے مستقبل کے بارے میں بات چیت جاری ہے۔
’’امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ دفاع اس کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں ، اور امید ہے کہ اس سے شاید بائیڈن انتظامیہ کی پہلی مدت کے اختتام سے پہلے گوانتانامو میں قیدیوں کی تعداد کم از کم ایک درجن یا اس سے زیادہ کم ہوتی نظر آئے گی‘‘۔
گوانتانامو میں قیدیوں کا ایک گروپ بھی ہے ، جن پر فی الحال فوجی ٹربیونلز اور ملٹری کمیشنز میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
سابق صدر اوباما کے دور میں ، ریپبلکنز نے سالانہ نیشنل ڈیفنس آتھرائزیشن ایکٹ (NDAA) کے تحت گوانتانامو بے سے یمن، اور کچھ دیگر ملکوں کے قیدیوں کی واپسی پر پابندی عائد کی تھی ۔ جس نے لیبیا اور صومالیہ کے قیدیوں کو بھی متاثر کیا ہے ۔جن کی رہائی کی منظوری دی گئی ہے۔
اس سے پہلے حالیہ دنوں میں چار پاکستانیوں کو رہا کیا ہے ۔ سیف اللہ پراچہ ، غلام احمد ربانی اور ان کے بھائی عبدل ربانی کو رہا کرکے پاکستان بھیج دیا گیا ہے ، جب کہ ماجد خان ، جنہوں نے گزشتہ سال فوجی کمیشن کی سزا مکمل کی تھی انہیں جنوبی امریکی ملک بیلیز منتقل کر دیا گیا ہے ۔
گوانتانامو قید خانے کو11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد اس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش نے 2002 میں گوانتانامو بے، کیوبا میں امریکی نیول بیس پر قائم کیا تھا ۔
دنیا کے مختلف ملکوں سے دہشت گردی کےخلاف جنگ میں دہشت گردی کےشبے میں تقریباً 780 قیدیوں کو وہاں لایا گیا ۔وقت کے ساتھ ساتھ کچھ قیدی رہا ہو گئے ۔ کچھ دوران قید مر گئے ۔ اب، 32 باقی ہیں۔ ان میں سے، 11 پر فوجی کمیشن کے نظام میں جنگی جرائم کے الزامات لگائے گئے ہیں ۔جن میں 10 مقدمے سماعت کے منتظر ہیں اور ایک کو سزا سنائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، تین قیدیوں کو غیر معینہ مدت کے لیے جنگ کے دوران حراست میں رکھا گیا ہے اور انہیں نہ تو ٹریبونل الزامات کا سامنا ہے اور نہ ہی رہائی کے لیے سفارش کی جا رہی ہے۔ اور 18 کو حفاظتی انتظامات کے ساتھ دوسرے ملک منتقل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سابق صدر براک اوباما گوانتانامو قید خانے کو بند کرنا چاہتے تھے ۔ اپنے دور میں انہوں نے کافی قیدیوں کو یا تو رہا کیا یا تیسرے ملک منتقل کیا ۔ صدر بائیڈن اس عزم کے ساتھ آے ہیں کہ وہ اس ڈیٹنشن سینٹر کو قیدیوں سے خالی کر دیں گے ۔
تاہم رپبلکن قانون ساز گوانتاکو بند کرنے کے خلاف ہیں۔ ،سابق صدر دونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اس قیدخانے کو مزید دہشت گردوں سے بھرنا چاہتے ہیں ۔
گوانتانامو بے میں ہر قیدی پر سالانہ کم از کم 17 ملین ڈالرز کا خرچ آتا ہے۔
گوانتانامو سے قیدیوں کی رہائی اور اسے بند کرنے کی مہم چلانے والوں میں گوانتانامو نیٹ ورک ،مختلف ایمنسٹی انٹرنیشنل گروپس، کلوز گوانتانامو، گوانتانامو جسٹس مہم اور لندن گوانتانامو کیمپین شامل ہیں۔