بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سوشل میڈیا پر آڈیو چیٹ روم 'کلب ہاؤس' کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔ لوگ سیاسی، سماجی اور ثقافتی مسائل پر تبادلۂ خیال کے لیے اس ایپ کا استعمال کر رہے ہیں۔
سیاست دان، بیوروکریٹ، تاجر، تجزیہ کار اور فلم، ٹیلی ویژن اور دیگر پرفارمنگ آرٹس اور فنونِ لطیفہ سے وابستہ کئی بڑے نام بھی اس پر کیے جانے والے مباحثوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے ہیں۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کلب ہاؤس اب کشمیریوں کے لیے ایک نئی سوشل میڈیا سنسنی بن گیا ہے جس نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوراں ہزاروں کی تعداد میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کو اپنی طرف راغب کیا ہے۔
سری نگر کے ایک شہری نے بتایا کہ ''کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے نافذ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہم کہیں آ جا نہیں سکتے تھے۔ تاہم کلب ہاؤس کے ذریعے دیگر لوگوں سے بات کر کے وہ وقت گزارتے رہے ہیں۔
معلومات میں اضافے کا ذریعہ
ایک کشمیری طالبہ کا کہنا تھا کہ اُنہیں ماسٹر کرنے کے لیے جلد ہی وادی سے باہر جانا ہے اور اس سلسلے میں ضروری معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے کلب ہاؤس اُس کے لیے بڑا کار آمد ثابت ہوا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے کلب ہاؤس میں ایسا چیٹ روم جوائن کیا جس سے اُنہیں اپنے تعلیمی منصوبے کو آگے بڑھانے میں مدد ملی اور اُن کے کئی تحفظات بھی دُور ہو گئے۔
ٹرولنگ سے نجات
کلب ہاؤس کو بعض لوگ اس لیے بھی پسند کرتے ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ٹوئٹر، فیس بک اور ان جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے مقابلے میں محفوظ ہے جہاں چیٹ رومز میں رہتے ہوئے کسی بھی طرح کے مباحثے میں بلا کسی خوف کے شامل ہوا جا سکتا ہے۔
سینئر صحافی اور مصنف گوہر گیلانی کہتے ہیں کہ "کلب ہاؤس، کشمیر کے عوام کے لیے نسبتاً ایک نیا ذریعہ، ایک نیا پلیٹ فارم ہے۔
اُن کے بقول اس پلیٹ فارم کے ذریعے لوگ فنونِ لطیفہ، سیاست، ثقافت اور دیگر معاملات پر بلا خوف و خطر گفتگو کرتے ہیں۔
امریکہ کی یونیورسٹی آف میسا چوسٹس سے وابستہ کشمیری ناول نگار اور مواصلات کے ماہر شہناز بشیر نے بتایا کہ "اتفاقی طور پر اور خوش قسمتی سے کلب ہاؤس ایک ایسے وقت سامنے آ گیا جب پوری دنیا کرونا کی وجہ سے ایک پریشان کن صورتِ حال سے دوچار تھی۔
بعض سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں چوں کہ ایک طویل عرصے سے سیاسی جلسے کرنے یہاں تک کہ بند کمروں میں سیاسی اجلاس بلانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے اور اب کرونا وائرس کی وجہ سے نافذ لاک ڈاؤن نے بھی اس طرح کی سرگرمیوں کے انعقاد کو ناممکن بنا دیا ہے وہ آپس میں کلب ہاؤس پر ہی مختلف امور پر تبادلۂ خیالات کرتے ہیں۔
ایک کلب ہاؤس روم میں پانچ ہزار تک افراد کسی ایک چیٹنگ گروپ میں شامل ہو سکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
کانگریس رہنما کی آڈیو لیک پر تنازع
حال ہی میں آڈیو چیٹ روم کلب ہاؤس پر ایک سیشن کے دوران دگ وجے سنگھ کی پاکستانی صحافی سے گفتگو کا ایک حصہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا۔ جس میں کانگریس رہنما کا کہنا تھا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آئی تو وہ آرٹیکل 370 پر نظرِثانی کرے گی۔
کانگریس رہنما کے بیان پر بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کئی رہنما اور مرکزی وزرا اس بیان پر تنقید کر رہے ہیں۔
دورانِ گفتگو دگ وجے سنگھ کا مزید کہنا تھا کہ جب آرٹیکل 370 ختم کیا گیا تو "نہ تو کشمیر میں جمہوریت تھی اور نہ ہی انسانیت" جب کہ کئی کشمیری رہنماؤں کو گرفتار کر کے یہ فیصلہ کیا گیا۔
کانگریس رہنما کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے حکمراں جماعت بی جے پی کے ترجمان سمبت پترا نے الزام لگایا تھا کہ کانگریس رہنما اس کلب ہاؤس مباحثے کے اسٹیج منیجر تھے اور اُنہوں نے ہی پاکستانی صحافی سے آرٹیکل 370 سے متعلق سوال پوچھنے کا کہا۔
اُن کا کہنا تھا کہ کلب ہاؤس میں ہونے والی گفتگو کانگریس کے جھوٹے پروپیگنڈہ کا حصہ ہے۔
اس واقعے نے اُن لوگوں کو مایوس کر دیا ہےجن کے نزدیک کلب ہاؤس اس لیے پسندیدہ تھا کہ یہاں آن لائن ٹرولنگ کا اندیشہ نہیں ہے۔