عراق میں حال ہی میں ہونے والے پارلیمانی انتخاب میں ایک ایسے مذہبی رہنما مقتداء الصدر کے بلاک نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی ہیں جو مغرب مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ تاہم وہ تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ حکومت کون بنائے گا۔ لیکن یہ یقینی ہے کہ حکومت جو بھی بنے گی وہ مخلوط ہو گی۔ یہ انتخابات عراق اور خطے کی مجموعی صورت حال پر کیا اثرات ڈالیں گے اس بارے میں وائس آف امریکہ کے قمر عباس جعفری نے برطانوی ایوان بالا کے رکن لارڈ نذیر احمد اور مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر ڈاکٹر فاروق حسنات سے بات کی۔
لارڈ نذیر احمد نے عراقی انتخاب کے نتائج کو دلچسپ اور غیر متوقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ جس اتحاد کی قیادت مقتداءالصدر کر رہے ہیں وہ عراق میں غیر ملکی مداخلت کے خلاف ہے اور اپنے معاملات خود چلانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر خود تو وزیر اعظم نہیں بن سکتے اس لئے کہ انہوں نے انتخاب نہیں لڑا ہے اور اسکے ساتھ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنا وزیر اعظم بنوا سکیں کیونکہ ایران کے حمایت یافتہ امیدواروں نے 47 نشستیں حاصل کی ہیں۔ تاہم یہ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی مخلوط حکومت کا حصہ بنیں۔ لیکن بہرحال مغرب کے نقطہ نظر سے وہاں جس جمہوریت کے لئے ٹونی بلئیر اور بش نے کوشش کی تھی وہ شاید اسکے اس نتیجے کی توقع نہیں کر رہے تھے۔
مشرق وسطیٰ میں مستقبل کی حکومت کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ رول بہت اہم ہو گا۔ ایران وہاں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا بلکہ اسے بڑھانا چاہے گا کیونکہ وہ عراق۔شام اور لبنان کے اندر مغرب کے خلاف مزاحمت قائم کرنا چاہتا ہے۔ لہذا مغرب اور خاص طور سے امریکہ کے لئے مسئلہ ہو گا اور خود عراق کے اندر بھی جو اتحادی حکومت بنے گی اسکو بھی اندرونی مسائل کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہو گا۔
ڈاکٹر فاروق حسنات نے کہا کہ مقتداءالصدر کے بلاک کی جانب سے یہ کامیابی غیر متوقع تھی کیونکہ وزیر اعظم العبادی کی کارکردگی بھی اچھی رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس بار لوگوں نے بنیادی طور پر عراق میں ووٹ کرپشن اور نااہلی کے خلاف دیا ہے اور نئے لوگوں کو موقع دیا ہے۔ ڈاکٹر حسنات نے کہا کہ بہت زیادہ امکان یہ ہی ہے کہ اگر صدر بلاک نے حکومت بنائی بھی تو یہ مخلوط حکومت ہو گی اور دوسرے لوگ بھی اس میں شامل ہونگے تو ظاہر ہے کہ انہیں پالیسیاں بھی دوسروں کے ساتھ مل کر ہی بنانی ہونگی۔
ڈاکٹر فاروق حسنات کا کہنا تھا کہ جو حالات ہیں ان میں عراق میں انتخاب ہونا ہی بڑی بات ہے اور وہ بھی کثیر جماعتی نظام کے تحت۔ انکا کہنا تھا کہ خطے میں سوائے تیونس کے ایسا نظام اور کہیں نہیں ہے اور عراق مشرق وسطیٰ کے دوسرے ملکوں کے لئے ایک مثال بن گیا ہے۔
اس بات چیت کی ریکارڈنگ سننے کیلئے نیچے دئے گئے لنک پر جائیں:
Your browser doesn’t support HTML5