امریکہ کی ریاست کولوراڈو کی سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے آئین کے تحت وائٹ ہاؤس کے مکین ہونے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
ریاست کولوراڈو کی سپریم کورٹ نے ٹرمپ کا نام امریکی آئین میں شامل شورش کی شق کے تحت ریاست کی پرائمری بیلٹ سے حذف کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ اب ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت یعنی فیڈرل سپریم کورٹ اس معاملے کا فیصلہ کرے گی کہ آیا ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن جماعت کی جانب سے صدارتی امیدواروں میں شامل ہوں گے یا نہیں۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق کولوراڈو کی سپریم کورٹ کے تمام ججوں کی تعیناتی ڈیموکریٹک پارٹی کے گورنرز نے کی ہے۔ ریاست کی اس سب سے اعلیٰ عدالت نے اپنی تاریخ میں پہلی بار امریکی آئین کی 14ویں ترمیم کے سیکشن تین کا استعمال کیا ہے، جس کے تحت صدارت کے کسی بھی امیدوار کو نا اہل قرار دیا جا سکتا ہے۔
کولوراڈو کی سپریم کورٹ سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں ریاست کی ایک ڈسٹرکٹ کورٹ نے فیصلہ دیا تھا جس کو اب ریاست کی سب سے اعلیٰ عدالت نے پلٹ دیا ہے۔
ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج نے قرار دیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے چھ جنوری 2021 کو کیپٹل ہل پر ہونے والی ہنگامہ آرائی میں لوگوں کو شورش پر اکسایا۔ لیکن ان کو انتخابات میں حصہ لینے سے نہیں روکا جا سکتا کیوں کہ یہ واضح نہیں ہے کہ آئین کی یہ شق صدارتی عہدے پر لاگو ہوتی ہے یا نہیں۔
SEE ALSO: ٹرمپ کے استثنا کا معاملہ؛ محکمۂ انصاف کا امریکی سپریم کورٹ سے جلد فیصلہ کرنے کی درخواستعدالت کا حالیہ فیصلہ چار جنوری تک یا اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک فیڈرل سپریم کورٹ اس کیس کا فیصلہ نہیں کر لیتی۔ ریاست کولوراڈو میں پانچ جنوری سے پریذیڈینشل پرائمری بیلٹس کی چھپائی شروع ہو جائے گی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے وکیل نے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ وہ ریاست کی عدالت کی جانب سے کسی بھی نا اہلی کے معاملے کو ملک کی اعلیٰ عدالت میں فوری طور پر چیلنج کریں گے۔ فیڈرل سپریم کورٹ کو ہی ملک کے آئین کی تشریح اور اطلاق کے حوالے سے حتمی اختیار حاصل ہے۔
ٹرمپ کے قانونی معاملات کی ترجمان الینہ حبہ کا کہنا تھا کہ کولوراڈو کی سپریم کورٹ سے جاری ہونے والا فیصلہ ملک کی جمہوریت کے مرکز پر حملہ ہے۔
منگل کو جاری کیے گئے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ کولوراڈو کی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ برقرار نہیں رہے گا اور سپریم کورٹ ریاست کی عدالت کے اس فیصلے کو منسوخ کر دے گی۔
SEE ALSO: ٹرمپ دوڑ میں شامل نہ ہوتے تو شاید دوبارہ صدارتی الیکشن نہ لڑتا: صدر بائیڈنڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو واٹرلو میں ایک جلسے میں شرکت کی۔ تاہم انہوں نے اپنے خطاب میں اس عدالتی کارروائی کا ذکر نہیں کیا۔
سابق صدر کی انتخابی مہم کے منتظمین کی جانب سے الیکشن فنڈ کے لیے ارسال کی گئی ای میل میں اس فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے اسے ’ظالمانہ فیصلہ‘ قرار دیا ہے۔
ری پبلکن جماعت کی نیشنل کمیٹی کی سربراہ رُونا میکڈینئل نے عدالتی فیصلے کو ’انتخابات میں مداخلت‘ سے تشبیہ دی ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ری پبلکن نیشنل کمیٹی اس فیصلے کے خلاف ٹرمپ کی بھر پھر پور قانونی معانت کا ارادہ رکھتی ہے۔
SEE ALSO: ٹرمپ کی ری پبلکن صدارتی مباحثے میں عدم شرکت، آٹو سیکٹر مزدوروں سے خطابواضح رہے کہ سال 2020 میں امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ریاست کولوراڈو میں ڈونلڈ ٹرمپ کو 13 فی صد ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اور انہیں اس ریاست میں آئندہ برس ہونے والے امریکہ کے صدارتی انتخابات میں کامیابی درکار نہیں ہوگی۔ لیکن اس ریاست کی اعلیٰ عدالت سے آنے والا فیصلہ ان کے لیے خطرناک قرار دیا جا رہا ہے کیوں کہ اس فیصلے کی نظیر میں دیگر عدالتوں یا الیکشن حکام کی جانب سے اسی طرح کے فیصلے آ سکتے ہیں جس کے بعد یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ انہیں اُن ریاستوں میں بھی انتخابی عمل سے باہر کر دیا جائے گا جہاں سے ان کی کامیابی لازمی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکہ کے آئین کے آرٹیکل 14 کے سیکشن تین کے تحت ملک کی مختلف عدالتوں میں کیسز دائر کیے گئے ہیں۔ آئین کا یہ سکیشن اس لیے بنایا گیا تھا کہ خانہ جنگی کے بعد کوئی بھی غیر قانونی کام کرنے والے شخص کو اقتدار میں آنے سے روکا جائے۔
یاد رہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چھ جنوری کو اپنے حامیوں سے خطاب کیا تھا جس کے بعد ان کے حامیوں نے ہجوم کی شکل میں کیپٹل ہل پر چڑھائی کر دی تھی۔ یہ سب کچھ ایسے وقت ہوا تھا جب کانگریس میں صدارتی انتخابات 2020 میں جو بائیڈن کی کامیابی کی توثیق کا عمل جاری تھا۔
امریکی محکمۂ انصاف نے ٹرمپ پر فردِ جرم میں 2020 کے صدارتی الیکشن کے نتائج تبدیل کرنے کے لیے دھوکہ دہی سے کام لینے اور سرکاری امور میں مداخلت کی سازش کے الزامات لگائے ہیں۔ یہ معاملہ امریکہ کی سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔
SEE ALSO: سال 2024 میں ہونے والے ایسے انتخابی معرکے جو پوری دنیا کے لیے اہم ہیںمحکمۂ انصاف کی طرف سے عائد کردہ فردِ جرم میں ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے موجودہ صدر جو بائیڈن سے صدارتی الیکشن میں اپنی شکست کو تبدیل کرنے کی کوشش میں اتحادیوں کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کرنے اور جھوٹ پھیلانے کی سازش کی۔
ٹرمپ پر چار الزامات عائد کیے گئے ہیں جن میں سرکاری امور میں مداخلت، سرکاری کام کو روکنے کی سازش، امریکہ کو دھوکہ دینے اور دوسروں کو ان کی آئینی ذمہ داریاں انجام دینے سے روکنے کی سازش شامل ہیں۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔