وائٹ ہاؤس نے 20 جنوری کو نو منتخب صدر کے حلف اٹھانے سے پہلے ان تمام سفیروں کو استعفی دینے کی ہدایت کی ہے جن کی تعیناتی سیاسی بنیادوں پرکی گئی تھی۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے جمعہ کو اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ سفیر جو امریکہ کی وزارت خارجہ کا مستقل حصہ ہیں اور جو امریکہ کے اعلیٰ سفارت کاروں کا 70 فیصد ہیں انہیں مستعفی ہونے کے لیے نہیں کہا گیا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ "یہ ایک معمول کا عمل ہے۔"
امریکہ کی اکیڈمی آف ڈپلومیسی کے صدر رونلڈ نیومین کے مطابق "سیاسی بنیادوں پر تعینات سفیروں کو اس لیے واپس بلایا جارہا ہے کہ وہ صدر اوباما کی سبکدوش ہونے والی انتظامیہ کی نمائندگی کر رہے تھے۔"
کربی کا کہنا تھا کہ "جب آ پ کا تقرر چاہے اس انتظامیہ یا کسی دیگر انتظامیہ میں سیاسی بنیادوں پر کیا جاتا ہے تو آپ کو اس بات کی توقع نہیں ہوتی کہ آپ نئے انتظامیہ کے آنے کے بعد بھی اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔"
قبل ازیں نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اسٹاف کی طرف سے ایسے بیانات آئے تھے کہ بیرونی ملکوں میں سیاسی بنیادوں پر تعینات سفارت کاروں کو نئے صدر کے حلف اٹھانے سے پہلے اپنے عہدوں سے الگ ہو جانے کے لیے کہا گیا۔
امریکہ کے موقر اخبا نیویارک ٹائمز نے کہا کہ ایسا کہنا کہ متاثرہ سفارت کاروں کو اپنے بچوں کی تعلیم یا خاندان کو درپیش صحت کے مسائل کے باوجود ان کی تعیناتی میں توسیع نہیں کی جائے گی یہ کئی دہائیوں کی روایت کے بر عکس ہے۔
ٹرمپ کی ٹیم کے اعلیٰ رکن نے ٹائمز کو بتایا کہ یہ اقدام کسی تلخی کی وجہ سے نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد صرف اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اوباما کی طرف سے بیرونی ملکوں میں تعینات سفارت کار طے شدہ نظام الاوقات کے تحت حکومت سے الگ ہو جائیں جیسا کہ وفاقی اداروں اور وائٹ ہاؤس میں سیاسی معاونین اپنے عہدوں سے الگ ہو جائیں گے۔
رونلڈ نیومین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "صرف ایک بات مختلف ہے کہ وہ کسی کو بھی توسیع نہیں دے رہے۔ یہ بات تھوڑی سے معمول سے ہٹ کر ہے۔"
رونلڈ نے مزید کہا کہ بہت کم سفارت کار توسیع چاہتے ہیں اور اگر ایسا ہو بھی تو وہ صرف تھوڑے عرصہ کے لیے ہوتا ہے۔