یمن کے وسیع علاقے پر قابض ایران نواز حوثی باغیوں کے ہاتھوں سابق صدر علی عبداللہ صالح کے قتل کے بعد ملک میں کشیدگی عروج پر ہے اور بین الاقوامی اداروں اور تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یمن کی خانہ جنگی بدتر صورت اختیار کرسکتی ہے۔
علی عبداللہ صالح کے قتل سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر غور کے لیے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک اجلاس منگل کو ہورہا ہے جس میں عالمی ادارے کے یمن کے لیے خصوصی ایلچی اسمعیل اولد شیخ احمدکونسل کے ارکان کو صورتِ حال پر بریفنگ دیں گے۔
عالمی ادارے کے ایک ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے کہا ہے کہ صالح کے قتل سے یمن کی پہلے سے ہی انتہائی پیچیدہ سیاسی صورتِ حال مزید الجھ گئی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ اقوامِ متحدہ فریقین کے درمیان مذاکرات کے ذریعے یمن کی خانہ جنگی ختم کرانے کے لیےتیار ہے لیکن اس کے لیے فریقین کا بحران ختم کرانے پر رضامند ہونا ضروری ہے۔
یمن میں 2014ء سے جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں اب تک 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔
سعودی عرب اور اس کےا تحادی عرب ملکوں کی جانب سے یمن کی بحری، بری اور فضائی ناکہ بندی کے باعث یمن کے بیشتر علاقوں میں قحط کی سی صورتِ حال ہے جبکہ وبائی امراض پھیلنے سے بھی لاکھوں جانوں کو خطرہ لاحق ہے۔
یمن کے لیے اقوامِ متحدہ کے امدادی مشن کے نگران جیم مِک گولڈرِک نے صدر صالح کے قتل کے بعد فریقین سے فوری جنگ بندی کی اپیل کی ہے تاکہ بے یار و مددگار شہریوں تک امداد پہنچائی جاسکے۔
منگل کو ایک بیان میں جیم مِک گولڈرک نے کہا ہے کہ دارالحکومت صنعا کی سڑکیں اور گلیاں میدانِ جنگ کا منظر پیش کر رہی ہیں اور لوگ اپنے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔
بیان میں عالمی ادارے کے عہدیدار نے کہا کہ حوثی باغیوں اور مقتول صدر کے حامیوں کے درمیان جاری لڑائی کے باعث صنعا کے شہری خوراک، ایندھن اور صاف پانی کے حصول کے لیے گھروں سے نکلنے سے قاصر ہیں اور انہیں فوری امداد کی ضرورت ہے۔
علی عبداللہ صالح نے 30 سال تک یمن پر برسرِ اقتدار رہنے کے بعد عوامی احتجاجی تحریک اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بین الاقوامی دباؤ کے باعث ایک معاہدے کے تحت 2012ء میں اقتدار اپنے نائب عبدالربہ منصور ہادی کو سونپ دیا تھا۔
تاہم 2014ء میں صدر ہادی کی حکومت کے خلاف ایران نواز حوثی باغیوں کی پیش قدمی اور بغاوت اور دارالحکومت پر قبضے کے بعد 2015ء میں عبداللہ صالح ایک بار پھر سیاست میں سرگرم ہوگئے تھے اور انہوں نے حوثیوں کے ساتھ اتحاد کرلیا تھا۔
صدر منصور ہادی کی حکومت کے حق میں سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک گزشتہ دو برسوں سے حوثی باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں پر بمباری کر رہے ہیں جس کے دوران وہ اپنے سابق اتحادی علی عبداللہ صالح کے حامیوں کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بناتے رہے ہیں۔
علی عبداللہ صالح نے گزشتہ ہفتے اچانک حوثی باغیوں کے ساتھ دو سال سے جاری اپنا اتحاد ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئےعندیہ دیا تھا کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
صالح کے اس اعلان کے بعد ان کے حامی فوجی دستوں اور حوثی باغیوں کے درمیان دارالحکومت میں شدید لڑائی چھڑ گئی تھی اور پیر کو حوثی باغیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے صنعا کے نواح میں علی عبداللہ صالح کو اس وقت قتل کردیا جب وہ ان کے بقول سعودی عرب فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
اطلاعات ہیں کہ حوثی باغیوں نے دارالحکومت کے ان علاقوں کا کنٹرول بھی دوبارہ حاصل کرلیا ہے جن پر علی عبداللہ صالح کے حامی فوجی دستوں نے قبضہ کرلیا تھا۔
ٹی وی پر خطاب میں صالح کے قتل کا اعلان کرتے ہوئے حوثی باغیوں کے رہنما عبدالمالک الحوثی نے الزام عائد کیا تھا کہ صالح باغیوں کے خلاف "بغاوت" کی کوشش کے دوران مارے گئے۔
حوثی رہنما نے صالح کی موت کو سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے لیے ایک تاریک دن بھی قرار دیا۔
عرب ممالک کی نمائندہ تنظیم عرب لیگ نے صالح کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اس قتل سے یمن کی سکیورٹی صورتِ حال مزید ابتر ہوگی۔
عرب لیگ نے اپنے ایک بیان میں حوثی باغیوں کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ حوثیوں سے اسی طرح کا برتاؤ کرے جیسا دہشت گردوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔