کانگرس کے رہنماؤں اور اوباما انتظامیہ نے حکومتی مصارف کے ایک عارضی سمجھوتے پر اتفاق کیا ہے جس سے وائٹ ہاؤس اور قدامت پسند ریپبلکنز ارکان کے درمیان بجٹ کے متعلق متنازع تعطل سے بچا جا سکتا ہے۔
یہ سمجھوتا ایوان نمائندگان کے ریپبلکن اسپیکر جان بوہنر اور سینٹ میں اکثریتی رہنما مچ میکونل اور ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک رہنما نینسی پیلوسی اور سینٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ ہیری ریڈ کے درمیان گزشتہ کئی ہفتے تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد طے پایا۔
اس مجوزہ منصوبے کے تحت وفاقی حکومت کے مکمل مصارف، حکومت کی قرض کی حد اور قرض حاصل کرنے کے اختیار کو مارچ 2017 تک بڑھا دیا گیا ہے جب صدر اوباما کے عہدے کی مدت ختم ہوئے دو ماہ ہو جائیں گے۔
اس منصوبے کے تحت فوجی اور ملکی اخراجات میں 2016 کے لیے 50 ارب ڈالر کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے اور 2017 کے لیے مزید 30 ارب رکھے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ پینٹا گان کے بیرون ملک جنگ لڑنے کے لیے مزید 16 ارب ڈالر رکھے گئے ہیں۔ ان اضافی فنڈز سے 2011 میں بجٹ سمھجوتے کے تحت مصارف زر پر عائد حد ختم ہو جائے گی۔
سوشل سکیورٹی معذوری انشورنس پروگرام کے لئے طویل مدت کی بچت اور صحت کی خدمات فراہم کرنے والوں کو ادائیگی اور وفاقی حکومت کی طرف سے معمر امریکی شہریوں کے لیے ہیلتھ انشورنس پروگرام کی وجہ سے اضافی مصارف متاثر ہوں گے۔
اس منصوبے کی ایوان نمائندگان اور سینیٹ سے منظوری ضروری ہے اور آئندہ منگل تین نومبر سے پہلے اس پر صدر کے دستخط ضروری ہیں کیونکہ تب حکومت کا موجودہ قرض حاصل کرنے کا اختیار ختم ہو جائے گا اور اسے پہلی بار اپنے قرض ادا کرنے کی ذمہ داری میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔
11 دسمبر کو عارضی مصارف کے منصوبے کی معیاد ختم ہو جائے گی جس سے قبل کانگرس رہنما حکومت کے دیگر اداروں کے لیے فنڈ فراہم کرنے لیے مذاکرت کریں گے۔
اس بجٹ سمجھوتے پر ایوان نمائندگان میں رائے شماری بدھ کو ہو سکتی ہے۔