کیا لاک ڈاون کرونا وائرس کو روکنے کا واحد طریقہ ہے؟

  • مدثرہ منظر

کرونا وائرس کی وباء نے دنیا کے مختلف ملکوں میں گویا زندگی ساکت کر دی ہے۔ (فائل فوٹو)

روزویل کیلیفورنیا میں ایک روشن دن، سورج اونچے درختوں کے پیچھے اپنا سفر ختم کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایسے میں فرح خاور قریشی کھڑکی کے باہر دور لمبی سڑک کی خاموشی کو اپنے دل میں محسوس کر رہی ہیں۔ یہ وہی سڑک ہے جس پر زندگی بھرپور انداز میں رواں دواں نظر آتی تھی۔ مگر کرونا وائرس کی وباء نے گویا زندگی ساکت کر دی ہے۔

جمعے کے دن جب گورنر گیون نیوسم نے اپنی ریاست میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا تو ریاست کے چار کروڑ لوگوں کیلئے یہ چونکا دینے والی بات تھی۔ کیلیفورنیا، جو گولڈن اسٹیٹ کہلاتی ہے، امریکہ کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست ہے۔ جہاں کی سلیکان ویلی ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب لا رہی ہے، جہاں کی ہالی ووڈ انڈسٹری زندگی کی کہانیاں فلم کے پردے پر لاکر آنکھوں کو چکا چوند کر دیتا ہے، وہاں کے گورنر کا کہنا ہے کہ اگر ریاست کو بند نہ کیا گیا تو 56 فیصد آبادی کرونا وائرس کا شکار ہو جائے گی۔

کیلیفورنیا کی نمایاں سیاسی شخصیت اور ممتاز پلمنالوجسٹ ڈاکٹر آصف محمود کہتے ہیں، " لاک ڈاؤن اس وائرس سے بچاؤ کا واحد طریقہ ہے۔ جہاں بھی اس میں تاخیر ہوئی، اس وائرس نے تباہی مچا دی"۔

وہ کہتے ہیں، " دنیا میں ابھی اس وائرس کا کوئی کارگر علاج نہیں ہے۔ اور نہ ہی ہمارے پاس اتنے وسائل ہیں کہ اگر یہ پوری طرح آ گیا تو ہم سب لوگوں کو سنبھال سکیں۔"

پیر کی سہ پہر تک کے اعدادو شمار کے مطابق اب تک دنیا بھر میں تین لاکھ 75 ہزار سے زیادہ لوگ اس وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد 16 ہزار سے زیادہ ہے۔ امریکہ میں متاثر ہونے والوں کی تعداد 42 ہزار سے بڑھ گئی اور 472 اموات ہو چکی ہیں۔

کہا جارہا تھا کی معمر لوگوں کو اس سے خطرہ زیادہ ہے۔ ڈاکٹر محمود کہتے ہیں جو لوگ پہلے سے بیمار ہیں، انہیں خطرہ زیادہ ہے۔ اور اگر نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس وائرس کی شدت برداشت کر لیں گے تو یہ ضروری نہیں ہے۔ ان کے اسپتال میں ایک 34 سالہ مریض چل بسا۔ اسے بچپن سے دمہ تھا۔ وہ کہتے ہیں امریکہ میں 40 فیصد مریض 20 سے 44 برس کی عمر کے ہیں۔

فائزہ سبین کی عمر بھی 30 برس سے کم ہے۔ وہ کیلیفورنیا میں ایسکیٹن اینڈ ڈگنیٹی ہیلتھ نامی نرسنگ ہوم میں نرسنگ سپر وائزر ہیں۔ لاک ڈاؤن کا اعلان ہونے کے باوجود وہ پوری رات ڈیوٹی پر رہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اب تک ان کے نرسنگ ہوم میں صرف ایک مریض کرونا وائرس سے متاثر ہوا اور اسے دوسرے اسپتال بھجوا دیا گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں خاصی تربیت دے دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے ہاں مریضوں کی دیکھ بھال کر سکیں کیونکہ اسپتالوں میں گنجائش پہلے ہی کم ہوتی جا رہی ہے۔

فرح سبین

کرونا وائرس نے امریکہ جیسے ملک میں بھی طبی ساز و سامان کی قلت پیدا کر دی ہے۔ ڈاکٹر آصف محمود جو کیلیفورنیا کے اسٹیٹ ہیلتھ بورڈ کے رکن بھی ہیں، کہتے ہیں، " ماسک اور وینٹی لیٹرز اور آئی سی یو میں بستروں کی بات نہ بھی کی جائے تو اتنے بڑے پیمانے پر لوگ متاثر ہو رہے ہیں کہ ان کی دیکھ بھال کیلئے مین پاور بھی نہیں ہے۔ اور ہو سکتا ہے دیگر ریاستوں سے اس سلسلے میں عملہ بلایا جائے۔"

آج امریکہ میں طبی عملے کے ہزاروں ریٹائرڈ افراد کو ڈیوٹی پر طلب کر لیا گیا ہے۔

ڈاکٹر آصف محمود کا کہنا ہے کہ ابھی صرف آٹھ فیصد لوگوں کا ٹیسٹ ہوا ہے، پوری آبادی کا ٹیسٹ ہوا تو تیس سے چالیس فیصد لوگ متاثر نکلیں گے۔

فائزہ سبین خوش ہیں کہ لاک ڈاؤن کے باعث کم لوگ باہر نکلیں گے اور کم بیمار ہوں گے۔

فرح خاور قریشی اپنی 88 سالہ ماں کو حالات کی نزاکت کا احساس دلانے کی کوشش کرتی ہیں مگر وہ بڑے سکون سے کہتی ہیں، "کیا ہوا۔ ایک روز مرنا تو ہے"۔

فرح خاور

ان کا بیٹا سخت بور ہورہا ہے کہ اسے گھر میں بند رہنا پڑ رہا ہے۔ فرح دور سڑک پر نظریں جمائے خیالوں میں گم ہیں، " کن فیٰکون کی تھیوری سمجھ میں آ گئی۔ اب بھی وقت ہے ہم سنبھل جائیں۔ اپنے خالق کے پیغام کو سمجھیں۔ وہ ہمیں موقع دے رہا ہے کہ ہم اس کی جانب پلٹیں،کہ بقا اسی میں ہے"۔