یوں تو کرونا وائرس کی یہ وبا دنیا کے ہر ملک کو متاثر کر رہی ہے، لیکن غریب ممالک کے لئے مسائل زیادہ سنگین ہیں اور جب کرونا کی وبا ختم ہوگی تو ان ملکوں کی معیشتوں کو درست کرنے کے لئے ایک نئی جدوجہد کا آغاز کرنا ہو گا۔ پاکستان بھی ان ہی ممالک میں شامل ہے اور اسے کرونا کے بعد اگلی جنگ معاشی میدان میں لڑنی ہو گی۔
ممتاز ماہر معاشیات اور سسٹینڈ ایبل ڈولپمنٹ پالیسی انسٹیٹوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے سربراہ، ڈاکٹر عابد سلیہری نے وائس آف امریکہ سے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وبا سے پاکستان میں مینو فیکچرنگ اور سروسز سیکٹرز کے علاوہ سب سے زیادہ روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے لوگ متاثر ہوں گے۔
عابد سلہری کا کہنا تھا کہ حکومت نے ان روزانہ اجرت پر کام کرنے والوں کو چار ماہ تک تین ہزار روپے ماہانہ دینے کے لئے دو سو ارب روپے اور بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام سے استفادہ کرنے والوں کو چار ماہ تک تین ہزار روپے ماہانہ اضافی دینے کے لئے ڈیڑھ سو ارب کے پیکجز دئے ہیں۔ اسکے علاوہ حکومت مینوفیکچرنگ سیکٹر اور ایکسپورٹ سیکٹر کو بھی سہارا دے رہی ہے، جس سے ظاہر ہے کہ ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہو گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام میں شامل ہے جسکی وجہ سے وہ کئی شعبوں میں عام آدمی کو کوئی رعایت نہیں دے سکتا، جیسا کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی۔ لیکن، اس قسم کی ہنگامی صورت حال میں پاکستان آئی ایم ایف سے نرمی یا استثنا کی درخواست کر سکتا ہے، جس کے لئے کام ہو رہا ہے۔ اور یہ استثنا مل جانے کے بعد پاکستان کو آسانی ہو جائے گی اور بعض شعبوں میں عام آدمی کو رعایت دئے جانے کے لئے آئی ایم ایف اسے ذمہ دار نہیں ٹھہرائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ عالمی مالیاتی اداروں نے بھی کرونا ریلیف فنڈ کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان اس سے بھی استفادہ کر سکتا ہے۔ لیکن، انہوں نے کہا کہ زیادہ تر صورت حال کا انحصار اس بات پر ہے کہ یہ وبا کب ختم ہوتی ہے۔ اسکے بعد ہی واضح تصویر سامنے آ سکے گی۔
فیڈریشن آف پاکستان اکنامک کونسل کے چیف اکنامسٹ ڈاکٹر ایوب مہر کا کہنا تھا کہ اس مرحلے پر درست اعداد و شمار بتانا تو کسی کے لئے بھی ممکن نہیں، لیکن ایشین بنک اور ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس وبا سے پاکستان کو مجموعی طور پر کوئی پانچ ارب ڈالر کے مساوی نقصان ہو گا، جو پاکستان کی جی ڈی پی کا ایک اعشاریہ پانچ فیصد بنتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ورلڈ بنک اور ایشین بنک سے اس مد میں مجموعی طور پر کوئی باون ملین ڈالر ملیں گے جو پاکستان کے متوقع نقصان کا کوئی دس فی فیصد بنتا ہے، یعنی نوے فیصد پاکستان کو اپنے ذرائع سے پورا کرنا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس قسم کی آفات ارضی و سماوی کی صورت میں اولین ترجیح لوگوں کی جانیں بچانے کو دی جانی چاہئے، جبکہ دوسرے مرحلے میں کاروباری سرگرمیوں یا صنعتوں کی بحالی کا کام ہونا چاہئے۔
پھر تیسرے مرحلے میں تباہی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں کی بحالی کا کام کیا جانا چاہئے۔
انکا کہنا تھا کہ حکومت کے امدادی پیکجوں میں زیادہ آمدنی والے گروپوں کو زیادہ دیا گیا ہے، جن کی آمدنی اگر رک بھی جائے تو انکی بچت ہوتی ہے، جبکہ کم آمدنی والے گروپوں کو کم دیا گیا، جنکی اپنی کوئی بچت نہیں ہوتی۔
خیال رہے کہ ابھی یہ صرف اندازے ہیں۔ اصل صورت حال کرونا وائرس کے ختم ہونے کے بعد ہی واضح ہو سکے گی۔