امریکہ دنیا بھر کے لوگوں کے لیے ایک ایسی سر زمین رہی ہے جہاں روزگار اور بہتر زندگی کے مواقع ہر محنت کرنے والے کو میسر ہیں۔ مگر کرونا وائرس کی وبا نے ان مواقع میں واضح کمی کر دی ہے۔
امریکی بیورو آف لیبر کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، امریکہ میں بے روزگاری کی شرح تیرہ فیصد سے کچھ زیادہ تک پہنچ گئی ہے۔ اگرچہ حالیہ ہفتوں میں امریکی ریاستوں میں کاروبار دوبارہ کھلنے کے بعد بے روزگاری انشورنس بینیفٹس کا مطالبہ کرنے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے مگر پھر بھی بے روزگاری کی شرح میں نمایاں کمی نہیں ہوئی۔
امریکی حکومت نے کرونا وائرس کی وبا سے معیشت کو سخت نقصان پہنچنے پر ابتدا ہی میں چھوٹے کاروباری مالکان اور کم تنخواہ دار طبقے کو مالی مشکلات میں مدد کیلئے کچھ رقم براہِ راست بھجوائی تھی۔ اس سے کافی لوگوں کو کسی حد تک ضروریاتِ زندگی پوری کرنے میں مدد ملی۔ مگر ابھی تک مزید امدادی رقم کا کچھ پتہ نہیں اور کرایہ تو ہر مہینے دینا ہی ہوتا ہے۔
جہانگیر راجہ ناردرن ورجینیا میں ایک دیسی سٹور کے مالک ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے امدادی رقم آنے تک تو وہ کافی مشکل میں تھے مگر اس رقم سے کم از کم وہ سٹور کا کرایہ ادا کر پائے۔
وہ امریکہ آنے سے پہلے سویڈن میں تھے۔ دو ہزار ایک میں امریکہ آئے اور کچھ عرصہ ایک امریکی سٹور میں کام کیا۔ انھوں نے بتایا کہ میں سویڈن سے کچھ رقم بھی لایا تھا اور تجربہ بھی تھا تو میں نے اپنا کاروبار کرنے کو بہتر سمجھا۔
جہانگیر کی طرح پاکستان اور بھارت سے آنے والے بہت سے لوگ امریکہ میں ایسے ہی چھوٹے کاروبار کرتے ہیں جن سے کمیونٹی کو اپنے ملک کی غذائی اشیا اور دیگر مصنوعات حاصل ہو جاتی ہیں۔
امریکہ میں کووڈ نائنٹین سے متاثرہ لوگوں میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو یہاں اقلیت میں ہیں جیسا کہ سیاہ فام امریکی یا ہسپانوی امریکی۔ اور کووڈ نائنٹین کی یہ بیماری نہ صرف ان لوگوں میں زیادہ پھیلی بلکہ انہیں بے پناہ اقتصادی مشکلات کا شکار بھی کر گئی۔
لیکن، کیا سب اقلیتیں یکساں متاثر ہوئی ہیں۔ اس بارے میں شکاگو یونیورسٹی میں انٹرنیشنل بزنس اینڈ مارکیٹنگ کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر بخاری کہتے ہیں کہ امریکہ میں ایک تو وہ اقلیتیں ہیں جو مقامی ہیں، جیسا کہ افریقی امریکی، اور دوسرے وہ لوگ جو دیگر ملکوں سے آکر یہاں آباد ہوئے۔
انھوں نے کہا کہ یہاں آنے والوں کی پہلی نسل عموماً مشکلات کا شکار ہوتی ہے، کیونکہ انہیں یہاں اپنی بقا اپنی زندگی بچانے کی فکر ہوتی ہے اور اس کے لئے وہ روزانہ کی بنیاد پر حاصل ہونے والی آمدنی پر بھی انحصار کر لیتے ہیں یا پھر امریکہ کے میٹرو پولیٹن علاقوں مثلاً نیویارک، شکاگو، ٹیکسس اور سئیٹل جیسے شہروں میں ان کے چھوٹے چھوٹے کاروبار ہیں۔ اور ان میں اکثریت ایسے لوگوں ہے جو ٹیکسی یا اُوبر چلاتے ہیں جن کا کروناوائرس کی وبا میں بہت نقصان ہوا ہے۔
جہانگیر راجہ نے بھی بتایا کہ اکثر ریستوران اور ٹیکسی چلانے والے ان سے اپنی مشکل کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ کرونا وائرس کی وبا میں ان کا کاروبار بالکل نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے اور اخراجات پورے کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔
ڈاکٹر بخاری نے کہا کہ امریکہ میں ایک بڑی تعداد ہسپانوی امریکیوں کی ہے جو یا تو ٹرانسپورٹ چلاتے ہیں یا لینڈ سکیپنگ کرتے ہیں اور موسمِ گرما آنے کے بعد انہیں کام کے مواقع ملے اور ان کی حالت کچھ بہتر ہوئی ہے۔
امریکہ میں جو لوگ اپارٹمنٹس کی بجائے گھروں میں رہتے ہیں انہیں سردی ختم ہوتے ہی اپنے گھر کے سامنے لان کی گھاس کاٹنے اور پھول پودے لگانے کیلئے مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور لینڈ سکیپنگ کا یہ کام عام طور پر سپینش ہی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر ظفر بخاری نے کہا کہ حکومت نے بارہ سو ڈالر فی ٹیکس پئیر جو لوگوں کو دئے ان سے بہت لوگوں کو سہارا ملا اور اب آہستہ آہستہ امریکی ریاستوں میں کاروبار کھلنا شروع ہو گیا ہے تو حالات کچھ بہتر ہونے کی امید ہے۔
جہانگیر راجہ نے بتایا کہ ان کے پاس چار لوگ کام کرتے ہیں اور وبا کےشروع میں تو ان کے ملازمین نے خوف کے مارے آنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ اور پھر سپلائی بھی کم ہو گئی، گاہک پہلے ہی نہیں آرہے تھے تو کاروبار چلانا بہت مشکل لگ رہا تھا مگر اب حالات بہتر ہوتے جا رہے ہیں۔
امریکہ میں بیورو آف اکنامک انیلسز یا بی ای اے کے مطابق سال دو ہزار بیس کی پہلی سہ ماہی میں امریکہ کی مجموعی پیداوار میں پانچ فیصد سالانہ کے حساب سے کمی واقع ہوئی ہے۔ اپریل تک کا یہ عرصہ وہ ہے جب امریکہ میں کرونا وائرس کی وبا کا زور تھا۔ بی ای اے نے مزید بتایا کہ اقتصادی پیداوار میں اس کمی کی ایک وجہ اندرونِ ملک سرمایہ کاری اور برآمدات میں کمی بھی تھی اور ریاستی حکومتوں اور وفاقی حکومت کے اخراجات بھی اس کا سبب رہے۔
ڈاکٹر ظفر بخاری نے کہا کہ اقتصادی ماہرین جب کسی ملک کی اقتصادی صورتِ حال کا اندازہ لگاتے ہیں تو وہ میکرو اکانومی کو دیکھتے ہیں جو کسی بھی ملک کی مجموعی معیشت ہے۔ لیکن، مائیکرو اکانومی اس سے مختلف ہے جس کا تعین کسی بھی شہر، ریاست، علاقے، کمیونٹی یا حلقے کے مطابق کیا جاتا ہے۔ اس کا اپنا ایک کلچر ہے اور اسی حساب سے اس کے اتار چڑھاؤ سے نمٹا جاتا ہے۔ چنانچہ، انھوں نے کہا کہ امریکہ میں ناردرن ورجینیا ایسی ریاست ہے جہاں مواقع زیادہ ہیں اور لوگوں میں دوبارہ ابھر کر آنے کی صلاحیت بھی زیادہ ہے۔
ناردرن ورجنیا کے جہانگیر راجہ جیسے چھوٹے کاروباری لوگوں نے بھی حوصلہ برقرار رکھا ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں، تاکہ ان کی کمیونٹی کے لوگوں کو ان کی انتہائی ضروری غذائی اشیا ملتی رہیں۔
ڈاکٹر ظفر بخاری نے بتایا کہ امریکی معیشت کا یہی شعبہ ایسا ہے جس کا پہیہ کبھی رکتا نہیں، یعنی سروسز سیکٹر جس کا براہِ راست تعلق لوگوں کی ضروریاتِ زندگی سے ہے؛ اور اس میں فارماسیوٹیکل انڈسٹری، فوڈ پراسسنگ اور پرسنل کئیر انڈسٹری شامل ہیں، خاص طور پر امریکہ کا صنعتی زیریں ڈھانچہ ایسا ہے کہ اگر آپ مینوفیکچرنگ میں دیکھیں تو وہاں سوشل ڈسٹنسنگ از خود موجود ہے اور وہ شعبہ جلد پوری طرح کام کرنا شروع کر دے گا۔
شکاگو یونیورسٹی میں انٹرنیشنل بزنس اینڈ مارکیٹنگ کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر بخاری کہتے ہیں کہ کووڈ نائنٹین کے اثرات ائیر لائینز اور سیاحت کی صنعت پر بہت منفی مرتب ہوئے ہیں اور بظاہر سوشل ڈسٹنسنگ اس وقت تک زندگی کا حصہ رہے گی جب تک کہ آئندہ برس کوئی ویکسین سامنے نہیں آجاتی جس کے بعد ہو سکتا ہے کہ لوگوں کی نفسیات بدلے اور اقتصادی حالت میں بھی بہتری آجائے۔
اس رپورٹ میں شامل انٹرویو سننے کیلئے نیچے دئیے ہوئے لنک پر کلک کیجئے۔
Your browser doesn’t support HTML5