فرانس نے کہا ہے کہ جی ٹوئنٹی گروپ کے ملک اس سال ترقی پذیر ممالک کے قرضوں کی ادائیگی جزوی طور پر معطل کر دینے پر راضی ہو گئے ہیں، جن میں زیادہ تر افریقی ممالک شامل ہیں۔
پیرس سے اپنی رپورٹ میں لیزا بریانٹ نے بتایا ہے کہ فرانس کے صدر ایمانوئل میخواں نے قوم سے خطاب میں کہا کہ فرانس اور یورپی یونین کو افریقی ممالک کو کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں مدد دینے کے لیے قرضوں میں بڑے پیمانے پر چھوٹ دینی چاہیے۔ خیال رہے کہ پوپ فرانسس نے بھی اسی قسم کی اپیل کی ہے۔
گزشتہ ہفتے فرانس نے افریقہ کے لیے کرونا وائرس کی مد میں امداد کے لیے ایک اعشاریہ چار ارب ڈالر کا وعدہ کیا تھا، جبکہ یورپین کمشنر عرسولہ ون لین نے ترقی پذیر ملکوں کے لیے سولہ ارب ڈالر سے زیادہ مدد کا اعلان کیا ہے۔ لیکن، دونوں ہی صورتوں میں یہ موجودہ فنڈز میں بس رد و بدل کی صورت میں ہی ہو گا۔
خیال رہے کہ افریقہ میں ابھی کرونا وائرس کا شکار ہونے والوں کی تعداد کم ہے لیکن ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس میں ڈرامائی تبدیلی آسکتی ہے۔ ایک ایسے بر اعظم کے لئے ممکنہ طور پر خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں جہاں صحت کا انتظام انتہائی ناکافی ہے اور جہاں لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں اور جہاں کے لئے اقوام متحدہ پہلے ہی پیشگوئی کر چکی ہے کہ افریقہ میں مجموعی طور پر اس سال اقتصادی شرح نمو آدھی رہ جائے گی۔
معاشی امور کے ممتاز تجزیہ کار شکاگو یونیورسٹی کے پروفیسر ظفر بخاری نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں عالمی مالیاتی ادارے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ صرف افریقہ ہی نہیں دنیا کے دوسرے خطوں کے ترقی پذیر ممالک بھی اس کرونا کے سبب اقتصادی بد حالی کی زد میں ہیں، جن میں جنوبی ایشیا کے ممالک شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی بینک نے اس حوالے سے ایک اعشاریہ نو ارب ڈالر کی فنڈنگ کا اعلان کیا ہے، جس میں سے ایک ارب بھارت کو ملیں گے۔ دو سو ملین پاکستان اور ایک اعشاریہ چار ملین ڈالر افغانستان کو ملیں گے اور چھوٹے ممالک کو چھوٹی رقوم دی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ جی ٹونٹی ممالک نے جی سیون ممالک سے بھی اس سلسلے میں تعاون کی سفارش کی ہے۔ ڈاکٹر ظفر بخاری نے کہا کہ ترقی پذیر ملکوں کو اپنی معیشتوں کو سہارا دینے کے لئے زیادہ امداد کی ضرورت پڑے گی۔