کرونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں اور وبا کے تیزی سے پھیلنے کے باعث عالمی سطح پر خوف کی فضا ہے جب کہ دُنیا بھر میں مقیم چینی اور ایشیائی باشندوں کو بھی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد دُنیا کے مختلف ممالک میں مقیم چینی اور ایشیائی باشندوں کو شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بعض واقعات سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ شاید چینی یا ایشیائی باشندے اجنبی یا کسی اور ہی دُنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے نسل پرستی کی بنیاد پر بھی واقعات رُونما ہو رہے ہیں۔
آسٹریلیا کے گولڈ کوسٹ اسپتال میں ایک مقامی مریض نے اپنی ایشیائی ڈاکٹر سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا۔ مذکورہ ڈاکٹر کے بقول یہ لمحہ اُن کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں تھا۔
ٹوئٹر پر ڈاکٹر ریحا لی یانگ نے اس واقعے کا تذکرہ کیا۔ جس کے بعد ہزاروں لوگوں نے اس ری ٹوئٹ کیا۔ ڈاکٹر ریحا کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کے باعث عالمی سطح پر خوف کی فضا بن گئی ہے۔ ایسے میں اس مریض کا ردعمل عام تھا۔
خیال رہے کہ طبی ماہرین کے بقول کرونا وائرس متاثرہ شخص کے کھانسنے، چھینکنے یا چھونے سے بھی دُوسرے شخص میں منتقل ہو سکتا ہے۔ جس سے بچنے کے لیے عالمی ادارہ صحت نے ایک ہدایت نامہ بھی جاری کر رکھا ہے۔
رپورٹ کے مطابق چینی باشندوں یا ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کو دُنیا بھر میں شک کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ چاہے اُن میں سے کوئی وائرس کے پھیلاؤ کا مرکز سمجھے جانے والے شہر ووہان یا کسی متاثرہ شخص سے ملا ہے یا نہیں۔
اٹلی کے شہر وینس میں چینی سیاحوں کی موجودگی کی اطلاع پر بھی افراتفری پھیل گئی۔ شمالی اٹلی کے شہر تورین میں ایک کنبے کے کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کی افواہ پر خوف پھیل گیا۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اٹلی کے ہی شہر میلان میں ماؤں نے بچوں کو اپنے چینی ہم جماعتوں سے فاصلہ رکھنے کی تلقین کی ہے۔ کینیڈا میں ایک شاپنگ مال کی پارکنگ پر ایک سفید فام شخص ویڈیو بناتے ہوئے ایک کینیڈین نژاد چینی خاتون سے کہہ رہا ہے کہ تم کرونا وائرس یہیں پھینک دو۔
ملائیشیا میں ایک دستخطی مہم شروع کی گئی ہے۔ جس میں چینی شہریوں کو ملائیشیا آںے سے روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس دستخطی مہم پر ایک ہفتے کے دوران 5 لاکھ لوگ دستخط کر چکے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات معلومات کی کمی کے باعث پیش آ رہے ہیں۔ لیکن اس سے خطرناک طور پر چینی اور ایشیائی باشندوں کے خلاف نسلی پرستی کو ہوا مل رہی ہے۔
آسٹریلیا کی سائنس اور ریسرچ ایجنسی میں تعینات ڈاکٹر روب گرینفل کا کہنا ہے اس کا تعلق انسانی نفسیات سے ہے۔ اُنہوں نے 14 ویں صدی میں یورپ میں طاعون کی وبا کا ذکر کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ تاریخی حوالوں سے پتا چلتا ہے کہ وبا کا ذمہ دار بھی غیر ملکیوں یا مذہبی عبادات کے لیے آںے والوں کو ٹھہرایا گیا۔ اُن کا کہنا تھا بلاشبہ اس وائرس کا ماخذ چین ہے۔ لیکن اس بنیاد پر چینی شہریوں کو نشانہ بنانا قطعی درست نہیں۔
برطانیہ کے ایک طبی جریدے میں لکھے گئے مضموں میں ایک ڈاکٹر ابرار کرن کا کہنا ہے کہ ایسے رویے وائرس میں مبتلا شخص کی حوصلہ شکنی کا موجب بھی بن سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ ڈر کے مارے اپنے مرض سے کسی کو آگاہ ہی نہ کرے۔
عالمی ادارہ صحت نے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ غیر ضروری سفری پابندیاں عاید نہ کریں۔ لیکن اس کے باوجود مختلف ممالک نے سفری پابندیاں عاید کر دی ہیں۔
سڈنی میں زیرِ تعلیم چینی طالب علم ابی شی نے بتایا کہ اُن کے بعض کلاس فیلوز کا ردعمل ایسے ہی ہے جیسا کہ وہ چینی طلبہ پر حملہ کرنا چاہتے ہوں۔
ماہرین کے مطابق یہ ایک مشکل صورتِ حال ہے۔ اگر یہ وائرس ختم بھی ہو گیا اس کے باوجود لوگ چینی ریستورانوں، کاروباری مراکز یا چینی شہریوں سے میل جول رکھنے میں احتیاط برتیں گے۔
بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر غلط معلومات کے سیلاب سے بھی معاملہ پیچیدہ ہوا۔ مثال کے طور پر ایک ویڈیو میں دکھایا گیا کہ نوڈل کھانا بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
خیال رہے کہ چین میں پھیلنے والے اس وبائی مرض کے باعث اب تک 400 سے زائد افراد ہلاک اور 20 ہزار اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر دُنیا کے مختلف ممالک نے اپنے شہریوں کو چین سے نکال لیا ہے جب کہ چین کے ساتھ ذرائع آمدورفت بھی معطل کر دیے گئے ہیں۔