امریکہ سمیت کئی ممالک میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے عملی اقدامات کے ساتھ ساتھ اقتصادی سرگرمیوں کی بتدریج بحالی کے لیے زور دیا جا رہا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں کچھ رہنما اصول جاری کیے جن کے تحت امریکی ریاستیں ایسی جگہوں پر جہاں کرونا وائرس کے کیسز پر قابو پایا جا چکا ہے، وہاں صحت عامہ کے مناسب اقدامات کے بعد آہستہ آہستہ لاک ڈاؤن کی حفاظتی پابندیاں نرم کی جا سکتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق ایسے حالات میں جب کہ کووڈ 19 کے لیے کوئی، دوا یا ویکسین دستیاب نہیں، معمول کی زندگی کی طرف جانے کے لیے دو عوامل بہت اہم ہوں گے، یعنی سوشل ڈسٹینسنگ کی پابندی اور بڑے پیمانے پر میں ٹیسٹنگ کرنے کی صلاحیت۔
وائس آف امریکہ نے یہ سوال ریاست ورجینیا کے ایک ماہر ڈاکٹر راشد نیر کے سامنے رکھا تو انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں ایک محتاط انداز اپنانا ضروری ہے۔
ڈاکٹر نیر نے کہا، "کرونا وائرس ایک بہت تیزی سے پھیلنے والی وبا ہے۔ اس کی بر وقت روک تھام کے لیے یہ بات بہت ضروری ہے کہ اس سے متاثرہ افراد کی نشاندہی کی جا سکے تاکہ ان کا بروقت علاج کیا جا سکے اور وہ اس بیماری کے مزید پھیلاؤ کا سبب نہ بن سکیں۔"
ڈاکٹر نیر جو کہ پھیپھڑوں کے امراض کے ماہر ہیں اور الیگزینڈریا کے ای نووا اسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ کے ڈائریکٹر ہیں، کہتے ہیں کہ مناسب ٹیسٹنگ کے انتظامات وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
ماہرین صحت اور صحت عامہ کے حکام کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ وائرس سے متاثرہ 80 فیصد افراد اس موذی مرض کی علامات ظاہر نہیں کرتے۔
ایسے میں صرف ان 20 فیصد لوگوں کے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں جو کووڈ 19 کی شدید علامات ظاہر کرتے ہیں۔
دوسری طرف کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے اوائل میں ٹیسٹنگ کٹس بھی مناسب تعداد میں دستیاب نہیں تھیں جس کی وجہ سے سے میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکہ میں ایک دن میں ایک لاکھ چالیس ہزار ٹیسٹ کیے جا سکتے ہیں۔
امریکہ کی ایک بڑی انسان دوست تنظیم فیلر فاؤنڈیشن کے مطابق زندگی کو معمول پر واپس لے جانے سے پہلے ٹیسٹنگ کرنے کی صلاحیت کو کئی گنا بڑھانا ہو گا۔
تنظیم کے حکام نے سی این بی سی چینل کو بتایا کہ امریکہ کو معمول کی زندگی کی طرف لوٹنے سے پہلے ملک بھر میں کم از کم 20 لاکھ ٹیسٹ روزانہ کرنا ہوں گے۔
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر نیر نے کہا، "میں کہوں گا کہ ہمیں کم از کم 80 فیصد آبادی کے ٹیسٹ کرنے کی اہلیت حاصل کرنی چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کن افراد کو علاج معالجے کی ضرورت ہے اور کس جگہ پر کیا حفاظتی پابندیاں ہونی چاہیے ۔"
ماہرین کے مطابق ٹیسٹنگ کٹس کا معیاری ہونا بھی بہت ضروری ہے کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایسے لوگ جو اس وائرس سے متاثر ہوتے ہیں، ان میں سے تقریباً 40 فیصد کیسز میں ان کے نتائج مثبت سامنے آتے ہیں جو کہ غلط ہے اور خطرناک بھی۔
وائٹ ہاؤس کی کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ٹاسک فورس کے اہم رکن اور ماہر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے کہا ہے کہ اس بات پر بھرپور توجہ دی جا رہی ہے کہ ٹیسٹنگ کا زیادہ سے زیادہ ساز و سامان دستیاب ہو تاکہ ایک مکمل تصویر سامنے آ سکے۔
جہاں تک سوشل ڈسٹینسنگ کا تعلق ہے، بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کے مرکز یعنی سی ڈی سی نے لوگوں کو ہدایت جاری کر رکھی ہے کہ وہ عوامی جگہوں پر ایک دوسرے سے کم از کم چھ فٹ کے فاصلے پر رہیں تاکہ وائرس کا مزید پھیلاؤ روکا جا سکے۔
لیکن گذشتہ دنوں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کاروبار حیات کھولنے کی باتوں کے بعد کچھ لوگوں نے گھروں سے معمول کی طرح باہر نکلنا شروع کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف گروپس نے احتجاجی مظاہرے بھی کیے ہیں کہ مروجہ احتیاطی پابندیوں کو نرم کیا جائے اور امریکہ کو معمول کی زندگی کے لیے دوبارہ کھولا جائے۔
ماہرین صحت کے مطابق قبل از وقت بھرپور زندگی کی طرف لوٹنا خطرے سے خالی نہیں کیونکہ جن علاقوں سے کرونا وائرس کا عروج گزر چکا ہے وہاں اس بیماری کی دوسری لہر بھی آ سکتی ہے۔
ڈاکٹر طلحہ صدیقی جو کہ واشنگٹن علاقے میں پریکٹس کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ چہروں پر ماسک اور سوشل ڈسٹینسنگ میں کسی طور پر کمی نہیں آنی چاہیے۔
وہ کہتے ہیں، "میں سمجھتا ہوں جب تک ہم کرونا وائرس کو روکنے کے لیے کوئی ویکسین نہیں بنا لیتے، ہمیں سوشل ڈسٹینسنگ کی ہدایت پر سختی سے عمل کرنا چاہیے۔"
ماہرین کے مطابق اب سے جولائی تک کا وقت امریکہ کے لئے کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں انتہائی اہم ہے اور اس عرصے کے دوران اس وبا پر قابو پانے کے لیے سوشل ڈسٹینسنگ اور ٹیسٹنگ بہت کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔