توہینِ مذہب کے نام پر تشدد؛ 'سوچنا ہو گا کہ پاکستان میں ہی یہ واقعات کیوں ہوتے ہیں'

پاکستان میں اسلامی قوانین سے متعلق مشاورتی ادارے 'اسلامی نظریاتی کونسل' نے توہین مذہب کے الزام میں کسی شخص کو تشدد کانشانہ بنانے کے عمل کو غیر انسانی اور اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حال ہی میں پاکستان کے مختلف شہروں میں توہینِ مذہب کے الزامات کے بعد مشتعل ہجوم کے ہاتھوں لوگوں کو ہلاک کرنے کے واقعات سامنے آئے تھے۔

خیال رہے کہ پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں گزشتہ برس دسمبر میں مشتعل ہجوم نے توہینِ مذہب کا الزام لگا کر سری لنکن فیکٹری منیجر کو تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا تھا۔ حال ہی میں خانیوال میں بھی ایک ذہنی معذور شخص مشتعل ہجوم کے تشدد کے بعد دم توڑ گیا تھا۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر قبلہ ایاز کی صدارت میں حال ہی میں ہونے والے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ کے مطابق کسی شخص پر توہینِ مذہب کا الزام لگا کر اسے تشد د کا نشانہ بنانا غیر شرعی ، غیر انسانی اور اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔


اسلامی نطریاتی کونسل نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں پیش آنے والے واقعات پر انتہائی تشویش کا بھی اظہار کیا ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے اعلامیے سے قبل پاکستان میں سماجی حلقے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ملک میں مذہب کے نام پر بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کر رہی تھیں۔

ان تنظیموں کا عرصۂ دراز سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ توہینِ مذہب کے نام پر لوگوں کو تشدد پر اُکسانے اور قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ریاست کو ایکشن لینا چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات عالمی سطح پر پاکستان کی خٖفت کا باعث بنتے ہیں جب کہ اسلام بھی ایسے اقدامات کی ہر گز اجازت نہیں دیتا۔

قبلہ ایاز نے کہا کہ سیالکوٹ میں سری لنکن فیکٹری مینجر پریانتھا کمارا کی پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں تھا جبکہ خانیوال میں ایک فاتر العقل شخص کو مشتعل ہجوم نے اسلام اور مذہب کے مقدس نام کو غلط طریقے سے استعمال کرتے ہوئے تشدد کر کےہلاک کر دیا۔

پاکستان میں مذہب کے نام پر تشدد کیوں بڑھ رہا ہے؟

یادر ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران پاکستان میں توہینِ مذہب کے مقدمات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اسلام آباد میں قائم ایک غیر سرکاری تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز نے ایک مطالعاتی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد ملک میں سینکڑوں افراد کے خلاف توہین مذہب کے الزمات کے تحت مقدمات قائم کیے گئے۔ ان میں 89 افراد کو قانونی کارروائی مکمل ہونے سے قبل ہی مشتعل افراد نے ہلاک کر دیا۔

SEE ALSO: پریانتھا کمارا کیس: پولیس اب تک عدالت میں چالان پیش کیوں نہیں کر سکی؟


رپورٹ کے مطابق 2011 سے 2021 کے دوران توہینِ مذہب کے الزامات کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے جب اس دوران 1287 شہریوں کے خلاف الزامات عائد کیے گئے۔

ڈاکٹر قبلہ ایا ز نے کہا کہ ہمیں اب یہ سوچنا ہو گا کہ صرف ہمارے ہی ملک میں ایسے واقعات کیوں ہوتے ہیں؟

قبلہ ایاز نے کہا کہ بعض اوقات جھگڑا کوئی اور ہوتا ہے لیکن اس کو آسانی سے توہینِ مذہب کا رنگ دے دیا جاتا ہے۔ قبلہ ایاز کہتے ہیں کہ سیالکوٹ کے واقعے پر تقریباً سب کا اتفاق ہے کہ جھگڑے کی نوعیت کوئی اور تھی لیکن اس کو مذہبی رنگ دے دیا گیا۔

قبلہ ایاز کہتے ہیں کہ سیالکوٹ میں واقعہ فیکٹری کے بعض ملازمین کام نہیں کرتے تھے لیکن سری لنکن فیکٹر ی منیجر تمام ان ملازمین سے یہ توقع رکھتے تھے کہ کام میں ٖغفلت نہ کریں ۔ اسی طرح قبلہ ایاز کے بقول کئی دیگر واقعات میں ایسا نظر آیا ہے کہ ذاتی تنازعات کو بعض لوگ توہینِ مذہب کا رنگ دے دیتے ہیں۔

مذہبی اور سماجی امور کے محقق خورشید ندیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس صورتِ حال پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ ریاست کے کسی بھی شہری کو کسی عمل سے روکنے کے لیے دو چیزیں اہم ہوتی ہیں ایک اس کا سوچ اور طرزعمل کو تبدیل کرنا تاکہ وہ ایسے کام نہ کرے۔

خورشید ندیم کے بقول ہمیں لوگوں کو یہ باور کرانا ہو گا کہ اگر کوئی غیر قانونی کام کرے گا یا قانون ہاتھ میں لے گا تو وہ سزا بچ نہیں پائے گا۔

اُن کے بقول اگر اعداد و شمار کا جائزہ لیں توہینِ مذہب کے زیادہ تر الزامات غیر مسلموں پر لگے ہیں۔


'توہینِ مذہب کے جھوٹے الزام کی سزا بھی کڑی ہونی چاہیے'

قبلہ ایاز نے کہا کہ اگر توہینِ مذہب کے جھوٹے الزام کے بعد کوئی شخص عدالتی عمل کے بعد اگر بے گناہ بھی قرار دے دیا جاتا ہے تو پھر بھی ان کے بقول اس جھوٹے الزام کی وجہ سے اس شخص کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔

قبلہ ایاز کے بقول ایسی قانون سازی ہونی چاہیے کہ جھوٹے الزمات عائد کرنے والوں کو بھی سخت اور کڑی سزا دی جا سکے۔ ان کے بقول ایسے الزامات سے کسی بھی شخص کی جان کے تحفظ کی ضمانت جو ریاست یا اسلام نے دی ہے اسے مخدوش کر دیا جاتا ہے۔

ان کےبقول جہاں تک موجود قانون کا تعلق ہیں اس میں جھوٹا الزام عائد کرنے کی سزا نہایت ہی کم رکھی گئی ہے ۔

خورشید ندیم کہتے ہیں کہ ایسے واقعات کے تدارک کے لیے قانون سازی بھی ہونی چاہیے اور ریاست کو بھی سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔