’لوک ورثہ‘ کے قومی ادارے کی سربراہ، ڈاکٹر فوزیہ سعید کا کہنا ہے کہ تعلیم اور تہذیب و ثقافت کو فروغ دیتے ہوئے، معاشرے میں مروجہ انتہاپسندی کے رجحان کا مؤثر طور پر مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
منگل کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’جہاں رنگ‘ میں ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ جب کسی معاشرے سے’ پرفارمنگ آرٹس‘ کو نکال دیا جاتا ہے، تو وہاں لوگوں میں سخت گیری جنم لیتی ہے، اور برداشت کا مادہ ختم ہوجاتا ہے۔
اُن کے بقول، اپنے ماضی پر فخر کرنے سے مزید بہتر کام کرنے کا رجحان بڑھتا ہے۔ موسیقی اور پرفارمنگ آرٹس کی مختلف قسموں سے امید اور خوشی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، جو جارحیت کو ختم کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ثقافت کی ترویج سے نوجوان نسل میں موجود ناامیدی کی کیفیت کا خاتمہ ممکن ہے۔
منصب سنبھالنے کے بعد، ڈاکٹر فوزیہ نے لوک ورثے کے زیر اہتمام میلوں، محافل ِموسیقی، تہواروں، دستکاری اور ہنرمندوں کے لیے نمائشوں اور بچوں کے لیے ورکشاپس کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
تفصیل سننے کے لیے، وڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:
Your browser doesn’t support HTML5