وزیراعطم نواز شریف نے دہشت گردی کے خلاف قومی لائحہ عمل پر مشاورت کے لیے پیر کو اسلام آباد میں ایک اجلاس کی صدارت کی، جس میں تنظیم اتحاد المدارس کا ایک وفد بھی شریک تھا۔
اس اجلاس کا مقصد ملک میں موجود مدارس کا اندراج اور انہیں ضابطہ قانون میں لانے کے لیے تنظیم اتحاد المدارس سے مشاورت کرنا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف قومی لائحہ عمل میں کہا گیا تھا کہ ملک میں موجود مدارس کے اندراج کا ایک مؤثر نظام وضع کیا جائے گا۔
اجلاس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ اس اجلاس سے مدارس کی تنظیم اور حکومت کے اداروں کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا ہوئی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اجلاس کے شرکاء نے دہشت گردی کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے اور اس بات پر اتفاق کیا کہ اس قسم کی کارروائیوں میں ملوث کسی بھی شخص یا تنظیم کے خلاف قانون کے مطابق بلاامتیاز کارروائی کی جائے گی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ مشاورت کے اسی سلسلے کا دوسرا اجلاس 10 ستمبر کو ہو گا جس میں مدارس کے حوالے سے ایک حتمی لائحہ عمل تشکیل دیا جائے گا۔
چوہدری نثار نے کہا کہ مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے اتفاق رائے پایا گیا مگر اس کو آسان اور یقینی بنانے کے لیے تنظیم اتحاد المدارس حکومت کے ساتھ مل کر کام کرے گا اور آئندہ تین ماہ کے اندر یہ کام مکمل کر لیا جائے گا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ شرکا نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ وہ قانون کے مطابق اپنے اداروں کے مالی معاملات کی آڈٹ رپورٹ پیش کریں گے۔
’’بیرونی امداد کے سلسلے میں حکومت طریقہ کار وضع کرے گی جس پر انہوں نے اتفاق کیا۔ اس سلسلے میں اسٹیٹ بینک کے ساتھ تنظیم اتحاد المدارس کا ایک وفد بھی ملاقات کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اپنے بینک اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت دی جائے تاکہ ہم تمام معاملات شفاف طریقے سے سرانجام دے سکیں۔‘‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ علمائے کرام نے اس بات پر زور دیا کہ مدارس کے بارے میں قانون سازی میں ان کی مشاورت سے کی جائے جس پر حکومت نے ان سے اتفاق کیا۔
گزشتہ دسمبر میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کے واقعے کے بعد تیار کیے جانے والے لائحہ عمل کے دیگر نکات پر پیش رفت ہوئی ہے مگر مدارس کے معاملے پر اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
مختلف اندازوں کے مطابق ملک میں لگ بھگ 30,000 مدارس کام کر رہے ہیں مگر ان کے کوائف، مثلاً طلبا کی تعداد، ذرائع آمدن، نصاب وغیرہ کے متعلق کوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیں۔
ماضی میں مدارس کو ضابطہ قانون میں لانے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں جس کے باعث حکومت کسی بھی کارروائی سے پہلے مذہبی رہنماؤں کو اعتماد میں لینا چاہتی ہے۔
ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافے کے بعد اس طرح کے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ کچھ مدارس انتہا پسندی اور دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ مگر حکومت اس معاملے پر انتہائی محتاط ہے اور کسی ایسے بیان سے اعتراض کرتی رہی ہے جس سے تاثر ملے کہ وہ مدارس کے خلاف سخت کارروائی کرنے جا رہی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔ اس معاملے کی اہمیت اور حساس نوعیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کی فوج کے سربراہ نے خود اجلاس میں شرکت کی۔ اطلاعات کے مطابق اس اعلیٰ سطحی اجلاس کے انعقاد پر کئی ہفتوں سے کام جاری تھا۔