امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ دنیا ’پُرتشدد انتہاپسندی اور دہشت گردی کے ناسور کے خلاف متحد ہے‘۔ اُنھوں نے یہ بات واشنگٹن میں جاری سہ روزہ دہشت گردی کے انسداد کے سربراہ اجلاس کی اختتامی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
محکمہٴخارجہ میں منعقدہ اختتامی اجلاس میں 60 ممالک کے نمائندگان شریک تھے۔
اپنے کلمات میں، صدر اوباما نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں ’غیر متزلزل‘ عزم کا مظاہرہ کرے۔
اُنھوں نے دنیا بھر کے ملکوں سے مطالبہ کیا کہ وہ پُرتشدد انتہا پسندی کے خلاف صف آراٴ ہوجائیں۔ اُنھوں نے کہا کہ، ’جہادی یہ غلط تاثر پیش کر رہے ہیں کہ یہ تہذیبوں کے درمیان لڑائی ہے‘۔
اُنھوں نے سربراہ اجلاس سے کہا کہ، ’یہ بات کھلی دروغ گوئی ہے کہ مغرب اسلام کے خلاف صف آراٴ ہے‘۔
بقول اُن کے، ’اور، بغیر کسی مذہبی تفریق کے، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس تاثر کو مسترد کریں‘۔
صدر اوباما نے اجلاس میں شریک وفود پر زور دیا کہ وہ دہشت گرد گروہوں کی طرف سے پیش کردہ ’مسخ شدہ نظریے کا مقابلہ کریں‘، خصوصی طور پر اس حربے کو جس میں تشدد کی گھناؤنی کارروائیوں کو جائز قرار دینے کے لیے، وہ اسلام کو استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ دہشت گرد اپنے ہتھکنڈوں کو جائز قرار دینے کے لیے بے چین ہیں، جب کہ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ا<س تاثر کو رد کریں کہ داعش جیسے گروہ کسی طور پر بھی اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں، کیونکہ یہ سریح جھوٹ ہے، جو دہشت گردوں نے پھیلایا ہے۔
دریں اثناٴ، بدھ کو کمیونٹی اور مذہبی قائدین کے ایک گروپ کے خطاب کرتے ہوئے، صدر اوباما نے اُن پر زور دیا کہ وہ ’انتہاپسندی کے جھوٹے وعدوں‘ کو مسترد کرنے میں مدد دیں، کہ یہ ’دہشت گرد‘ گروہ کسی طور پر بھی اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں۔
اوباما انتظامیہ ایک محتاط انداز اپنائے ہوئے ہے، اور اِن دنوں جاری سربراہ اجلاس کو وہ محض اسلامی انتہاپسندی قرار نہیں دیتی، بلکہ وہ تمام قسم کی انتہاپسندی کی بات کرتی ہے۔
وائٹ ہاؤس میں ہونے والے اِس اجلاس سے خطاب میں اوباما نے کہا کہ یہ گروہ ’اپنے آپ کو مذہبی راہنما اور مقدس جنگجو‘ قرار دیتے ہیں۔ بقول اُن کے، ’یہ مذہبی راہنما نہیں۔ یہ دہشت گرد ہیں۔ ہم اسلام کے خلاف لڑائی نہیں کر رہے ہیں۔ ہم اُن عناصر سے لڑ رہے ہیں، جنھوں نے اسلام کو مسخ کیا ہے‘۔
اُنھوں نے معروف مسلمانوں سے براہِ راست اپیل کی کہ وہ اپنے آپ کو ’اِن ظالمانہ نظریات سے علیحدہ کرلیں‘۔
صدر نے وفود سے کہا کہ پُر تشدد انتہا پسندی کے خلاف لڑائی صرف فوجی طاقت کے استعمال سے نہیں جیتی جا سکتی۔
اُنھوں نے اس تاثر کو بھی غلط قرار دیا کہ زیادہ تر مسیحی اور یہودی مغربی دنیا نے مسلمانوں پر جنگ مسلط کر رکھی ہے۔
صدر نے اس بات کا عہد کیا کہ دولت اسلامیہ اور دیگر دہشت گرد گرہوں کے خلاف مستعدی سے جنگ لڑی جائے گی۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ دنیا کی حکومتوں اور ثقافتوں کو چاہیئے کہ وہ فرقہ واریت پر مبنی تنازعات کا خاتمہ کریں، جن میں اسلامی دنیا میں شیعہ سنی فرقہ واریت شامل ہیں۔ مزید یہ کہ، عالمی سربراہان کے لیے لازم ہے کہ وہ غربت اور جبر کے حربوں سے لوگوں کو بچائیں، جو، بقول اُن کے، دہشت گردوں کے ہاتھوں بھرتی کا سبب بنتے ہیں۔
اُن کے الفاظ میں، ’جب لوگوں پر جبر ہوتا ہے اور اُنھیں انسانی حقوق میسر نہیں آتے، خصوصی طور پر فرقہ وارانہ اور قومیت کی بنیادوں پر، اور جب اختلافِ رائے کو دبایا جاتا ہے، تو ایسے میں پُرتشدد انتہا پسندی فروغ پاتی ہے‘۔
اُنھوں نے کہا کہ دنیا بھر کے نوجوانوں کو ’نفرت سکھائی‘ جاتی ہے اور ’بڑی عمر کے لوگ ایسا کرتے ہیں‘۔
مسٹر اوباما کے خطاب سے قبل، اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، بان کی مون نے انسداد دہشت گردی کے عنوان پر وائٹ ہاؤس سربراہ اجلاس سے خطاب کیا، جس کا انعقاد محکمہٴخارجہ نے کیا۔
اقوام متحدہ کے سربراہ نے داعش اور بوکو حرام کی جانب سے تشدد کی سرگرمیوں کے بارے میں کہا ہے کہ یہ بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے سنگین خطرے کا باعث ہیں۔
تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گرد گروہوں کی جانب سے معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کو ملنے والی ترغیب کی اصل ذمہ دار، کئی دفعہ، خود دنیا کی کچھ حکومتیں ہی ہوتی ہیں۔