پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بیٹے کے خلاف مالی فوائد حاصل کرنے کے الزامات کا مقدمہ نمٹاتے ہوئے اٹارنی جنرل کو اختیار دیا ہے کہ وہ اس مقدمے کے فریقین کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیا تھا اور جمعرات کو عدالت نے اس معاملے پر کمیشن بنانے یا اس معاملے کو قومی احتساب بیورو کو بجھوانے کی درخواستوں کو بھی مسترد کر دیا۔
سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ از خود نوٹس کا مقصد حتمی فیصلہ دینا نہیں تھا بلکہ بدعنوانی کے الزامات سے متعلق مواد حاصل کرنا تھا۔
عدالت نے اٹارنی جنرل عرفان قادر کو ہدایت کی ہے کہ اس مقدمے کے تین فریقوں چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان افتخار، معروف کاروباری شخصیت ملک ریاض اور ان کے داماد سلمان خان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کریں۔
عدالتی کارروائی کے بعد ارسلان افتخار کے وکیل سردار اسحاق نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کے بیٹے پر ملک ریاض سے مالی فائدہ حاصل کرنے کے بعد عدلیہ کی ساکھ پر سوالات اٹھائے جا رہے تھے اس لیے سپریم کورٹ نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیا۔
’’عدالتوں کو ملوث کرنے کی کوشش کی گئی تھی اس لیے از خود نوٹس لیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ ہم نے دستاویزات منگوائی ہیں اور تفصیلی مطالعہ کیا ہے یہ زیادہ معاملہ کیش کا ہے 27 کروڑ کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ ساری ادائیگی سلمان ( ملک ریاض کے داماد) نے کی جو انگلینڈ میں بیٹھا ہوا ہے اس کا کوئی بیان حلفی ساتھ نہیں لگایا گیا کہ ہم اس کو دیکھ سکیں ان حالات میں ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کو یہیں بند کیا جاتا ہے اور اٹارنی جنرل چاہیں تو قانون کے مطابق تینوں کے خلاف کارروائیں کریں۔‘‘
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ذرائع ابلاغ نے اس معاملے میں سچائی جاننے کی کوشش نہیں کی اور صحافیوں کو خبر چلانے سے قبل چھان بین کرنی چاہیئے تھی۔
چیف جسٹس کے بڑے بیٹے ڈاکٹر ارسلان پر یہ الزام تھا وہ بحریہ ٹاؤن منصوبے کے خالق ملک ریاض سے یہ کہہ کر بھاری رقوم وصول کرتے رہے کہ سپریم کورٹ میں ان کے خلاف زیر التوا مقدمات کے فیصلے ملک ریاض کے حق میں حاصل کرنے کے لیے وہ اپنے والد کو راضی کریں گے۔
ان خبروں کے منظر عام پر آنے کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس معالے کا از خود نوٹس لیا تھا جسے سماعت کے بعد جمعرات کو نمٹا دیا گیا۔