پاکستانی نژاد امریکی شہری کی حوالگی کا معاملہ، شواہد پیش کرنے کی ہدایت

امریکی حکام نے نیویارک میں ایک دہشت گرد حملے کی منصوبہ بندی کے الزام کی بنا پر پاکستان سے 19 سالہ طلحہ ہارون کی حوالگی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔

پاکستان کی ایک عدالت نے حکومتی عہدیداروں سے کہا ہے کہ وہ عدالت میں جمع کروائی گئی اس رپورٹ سے متعلق اپنا موقف اور شواہد پیش کریں جس میں انہوں نے ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری طلحہ ہارون کو شدت پسندوں سے رابطوں کے الزام میں امریکہ کے حوالے کرنے کی سفارش کی ہے۔

امریکی حکام نے نیویارک میں ایک دہشت گرد حملے کی منصوبہ بندی کے الزام کی بنا پر پاکستان سے 19 سالہ طلحہ ہارون کی حوالگی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔

طلحہ ہارون کے والد ہارون رشید نے وکیل طارق اسد کے ذریعے اپنے بیٹے کی امریکہ حوالگی روکنے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی نے جمعہ کو اس معاملے کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت میں اس معاملے پر اپنا موقف اور شواہد پیش کریں جس کی بنا پر انہوں ںے طلحہ ہارون کو امریکہ کے حوالے کرنے کی سفارش کی ہے۔

عدالت نے طلحہ ہارون کے وکیل طارق اسد سے بھی کہا ہے کہ وہ بھی آئندہ سماعت پر پیش ہو کر اس معاملے پر اپنا موقف پیش کریں۔

بتایا گیا ہے کہ اس معاملے کی آئندہ سماعت رواں سال ستمبر میں دوبارہ متوقع ہے۔

طارق اسد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے عدالت میں یہ موقف اختیار کیا کہ اس رپورٹ میں ان شواہد کا کوئی ذکر نہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ طلحہ ہارون نے مبینہ طور پر پاکستان میں کسی غیر قانونی عمل کا ارتکاب کیا ہو۔

انہوں نے کہا " یہاں (پاکستان میں) اس نے کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا ہے اور ان کے خلاف الزام ثابت بھی نہیں ہوا کیونکہ فوجداری قانون میں یہ شہادت چاہیے ہوتی ہے کہ اس نے کوئی ایسا عمل کیا جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکے کہ وہ ممکنہ طور کوئی جرم کر سکتا تھا یا وہ کرنا چاہتا تھا۔"

طارق اسد نے کہا کہ یہ نوجوان 1997 میں پیدا ہوا اور 2014 ء میں پاکستان آیا اور ستمبر 2014 میں اسے پاکستانی حکام نے اس وقت حراست میں لیا تھا جب وہ اپنے والد ہارون رشید کے ساتھ کوئٹہ میں مقیم تھا جس کے بعد سے وہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں بند ہے ۔

امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کی تفتیش کے مطابق طلحہ ہارون گزشتہ سال اپریل میں پاکستان میں موجود تھا جب اس نے نیویارک میں حملے کرنے کی مںصوبہ بندی کی تھی۔

طلحہ کے والد اس الزام کو مسترد کرتے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ ان کے بیٹے نے امریکہ میں کوئی جرم نہیں کیا اور پاکستان میں قیام کے دوران اس پر "جھوٹا الزام" عائد کیا گیا اور اگر اسے امریکہ کے حوالے کیا جاتا ہے تو اس کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔