پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کی ایک عدالت نے عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالبِ علم مشال خان کے قتل کے 57 ملزمان پر فردِ جرم عائد کردی ہے۔
مشال خان کے قتل کے مقدمے کی سماعت منگل کو ضلع ایبٹ آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ہری پور جیل کے احاطے میں کی۔
سماعت کے دوران عدالت کے جج فضل سبحان نے 57 ملزمان پر فرداََ فرداََ فردِ جرم عائد کی۔ تمام ملزمان نے صحتِ جرم سے انکار کیا۔
عدالت نے مقدمے کی کارروائی ملزمان پر فردِ جرم عائد کرنے کے بعد بدھ تک ملتوی کر دی۔
عدالت مقدمے کے آٹھ گواہوں کے بیانات بدھ کو قلم بند کرے گی جس کے لیے تمام گوہوں نوٹس جاری کردیے گئے ہیں۔
قتل کے مدعی اور مشال خان کے والد اقبال خان کی پیروی کرنے والے وکلا پینل میں شامل شہاب الدین ایڈوکیٹ نے نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق اس مقدمے کی سماعت ہری پور سینٹرل جیل کے احاطے میں ہی ہوگی اور منگل کو باضابطہ سماعت کا پہلا دن تھا۔
مشال خان کو ان کے ساتھی طلبہ، یونیورسٹی ملازمین اور بعض دیگر افراد نے 13اپریل 2017ء کو توہینِ مذہب کے الزام میں تشدد کرنے کے بعد گولیاں مار کر نہایت بے رحمی سے قتل کر دیا تھا۔
مردان پولیس نے اس مقدمے میں 61 ملزمان کو نامزد کیا جن میں سے تازہ ترین اطلاعات کے مطابق 57 گرفتار کیے جا چکے ہیں۔
مقدمے کے چار ملزمان جن میں ایک منتخب کونسلر بھی شامل ہے تاحال مفرور ہیں۔
مقدمے کے گواہان کی فہرست میں زیادہ تر یونیورسٹی اساتذہ، طلبہ اور پولیس اہلکار شامل ہیں۔