پاکستانی فوجی افسر علی خان کے خلاف کورٹ مارشل

Court Proceedings

الزامات درست ثابت ہوئے تو بریگیڈیئر علی خان کو پاکستانی قوانین کے مطابق سزائے موت کا سامنا کرنا پڑے گا

حکومت پاکستان کےخلاف فوجیوں کوبغاوت پراکسانے اور راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے صدر دفاتر پر حملے کے الزام میں گزشتہ سال مئی سے زیرحراست بریگیڈئیر علی خان کے خلاف ایک میجر جنرل کی عدالت میں کورٹ مارشل کا بدھ کوآغازہوا۔ کورٹ مارشل کی کارروائی سیالکوٹ کے ایک گیریژن میں کی جارہی ہے۔

بریگیڈئرخان پرتین الزامات لگائے گئے ہیں: حکومت کےخلاف عسکری نوجوانوں میں بغاوت کے جذبات پھیلانا، جی ایچ کیو پر حملہ اور کالعدم تنظیم حزب التحریر سے تعلقات۔


اگر بریگیڈئیر خان پر الزامات درست ثابت ہوئے تو انہیں پاکستانی قوانین کے مطابق سزائے موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کورٹ مارشل کی شنوائی روزانہ کی بنیاد پر ہوگی جبکہ علی خان کو کورٹ مارشل کا فیصلہ سول عدالت میں چیلنج کرنے کا حق حاصل ہوگا۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق بریگیڈئیر خان نے ٹرپل ون بریگیڈ کے ایک سینئیر افسر کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ ان کے حزب التحریر سے قریبی تعلقات ہیں اور وہ اس تنظیم کے فلسطینی سربراہ کے ساتھ بھی ملاقات کر چکے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق بریگیڈیئر عامر ریاض نے حکومت کو اپنے بیان میں یہ بھی بتایا کہ بریگیڈئیر خان کالعدم تنظیم حزب التحریر کے ذریعے ملک پر اسلامی طرز کی خلافت قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

اسی ضمن میں بریگیڈیئر خان نے بریگیڈئیر ریاض کو یہ بھی بتایا تھا کہ حزب التحریر نے پاکستان کے لیے آئین بھی تیار کر رکھا ہے اور اس کے پاس ایک علامتی حکومت بھی موجود ہے جو کسی بھی وقت پاکستان میں حکومت سنبھالنے کے لیے تیار ہے۔

اس منصوبے کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے بریگیڈئیر خان کے مطابق یہ ضروری تھا کہ موجودہ فوجی قیادت کو منظر سے ہٹادیا جائے۔

بریگیڈئیر ریاض اس مقدمے میں استغاثہ کے ایک گواہ ہیں۔ انہوں نے عدالت کو اپنے تحریری بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ بریگیڈئیر خان نے انہیں بتایا تھا کہ پاکستانی فضائیہ کے بعض عناصر اس منصوبے میں کالعدم حزب التحریر کے ساتھ ہیں جو کسی فارمیشن یا کور کمانڈر اجلاس کے دوران ایف سولہ طیاروں سے جی ایچ کیو پر حملہ کر کے فوجی قیادت کو ختم کر دیں گے۔

بریگیڈئیر ریاض نے اس بیان میں یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ بریگیڈئیر خان نے انہیں بھی اپنے منصوبے میں شامل کرنے کی کوشش کی اور ان سے مطالبہ کیا کہ جی ایچ کیو پر فضائی حملے کے بعد وہ اسلام آباد کی اہم عمارتوں کوقبضے میں لے لیں مگر انہوں نے اس منصوبے کا حصّہ بننے سے انکار کر دیا۔

بریگیڈیئر خان پر رواں سال کے شروع میں فرد جرم عائد کی گئی تھی۔پاکستان کے ایک اور خبر رساں ادارے ثناء نیوز کے مطابق بریگیڈیئر خان کے خلاف الزامات کی بنیاد استغاثہ کےگواہ میجر سہیل اکبر کا وہ بیان بھی ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ جی ایچ کیو پر حملے کی غرض سے راولپنڈی کے قریب ایک فوجی ہوائی اڈے پر تعینات ایف سولہ طیارے کے ایک پائلٹ کو ہمنوا بنا لیا گیا تھا۔

میجر اکبر یہ اعتراف بھی کرچکے ہیں کہ وہ سات سال سے حزب التحریر کے ارکان سے ملتے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جولائی 2010 ء میں ہونے والی اسی طرح کی ایک ملاقات کے دوران حزب التحریر کے ارکان کے ساتھ ملاقات میں بریگیڈیئر خان بھی موجود تھے۔’اس ملاقات کے دوران پہلی باران پر یہ انکشاف ہوا کہ حزب التحریر کے لوگ بریگیڈیئر خان کے ساتھ مل کر فوجی اور سیاسی قیادت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔‘

میجر اکبر کے مطابق اسی ملاقات کے دوران حزب التحریر کے نوجوانوں نے بریگیڈیئر خان سے پوچھا کہ ’پلان‘ کیا ہے جس پر بریگیڈیئر خان نے ایک کاغذ پر دائروں کی شکل میں کچھ لکیریں کھینچیں اور کہا کہ تین سے چار سو مسلح لوگوں کی مدد سے وہ اقتدار پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ میجر اکبر کے مطابق بریگیڈیئر خان نے کہا کہ وہ خود ان مسلح افراد کے دستے کی قیادت کریں گے۔ میجر اکبر نے کہا کہ اس ملاقات کے بعد بھی حزب التحریر کے لوگوں کے ساتھ روابط رہے جنہوں نے مجھے بتایا کہ بریگیڈئیر خان نے ایک ایف سولہ طیارے کے پائلٹ کا بندوبست کر لیا ہے۔

میجر اکبر کا مزید کہنا ہے کہ انہی روابط میں معلوم ہوا کہ بریگیڈیئر خان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ فوج کی ٹرپل ون بریگیڈ کے سربراہ اور کچھ جنرلز بھی بریگیڈئیر خان کے ہمنوا ہیں۔

بریگیڈئیر ریاض کے مطابق ان کی طرف سے ناکامی کے بعد میجر خان نے دوسرے افسران کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی تھی۔